بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 شوال 1445ھ 05 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

نکاح کے منعقد ہونے کیلیے گواہوں کا ہونا ضروری ہے


سوال

میری بہن نے  ایک لڑکے کے ساتھ نکاح کیا ،نکاح کے وقت دو یہ تھے اور تیسرا نکاح خواں تھا، ان کے علاوہ  کو ئی  اور گواہ موجود نہیں تھا،اس وقت بہن کی عمر سترہ سال تھی ،والدین کو نہ نکاح کا پتہ تھا اور نہ ہی انہوں نے اجازت دی تھی۔نکاح 2018ء میں ہوا اور میاں بیوی کے درمیان علیحدگی 2019 ء میں ہوئی ،لیکن طلاق وغیرہ کے ذریعے نہیں بلکہ میری بہن ویسے والدین کے گھر آگئی تھی ،اس لڑکے سے میری بہن کی ایک بیٹی بھی ہے ،بہن والدین کے گھر ہے ۔نکاح نامہ اور مجلس ِنکاح میں لڑکے کا عرفی نام لیا اور لکھا گیاتھا۔

1۔           اب دریافت یہ کرنا ہے کہ  کیا گواہوں کے بغیر بھی  نکاح منعقد ہو جاتا ہے ؟

2۔           والدین کی اجازت کے بغیر بالغہ لڑکی کا نکاح درست ہو جاتا ہے ؟

3۔           نکاح نامہ اور مجلس ِنکاح میں لڑکے کا عرفی نام لیا اور لکھا جائے جبکہ لڑکا خود بھی مجلس میں موجود ہو ،مثلاً: لڑکے کا اصل نام محمد اویس قمر اور عرفی نام ذیشان ہو اور نکاح کے وقت عرفی نام لیا /لکھا جائے تو نکاح منعقد ہو جاتا ہے یا نہیں ؟

جواب

1۔گواہوں کے بغیر نکاح  شرعاً منعقد نہیں ہوتا ہے۔

«الفتاوى العالمکيرية = الفتاوى الهندية»ميں ہے:

(ومنها) الشهادة قال عامة العلماء: إنها شرط جواز النكاح

(كتاب النكاح،الباب الأول في تفسير النكاح شرعا وصفته وركنه وشرطه وحكمه:1/ 267،ط:دارالفكر)

الدرالمختار و حاشية ابن عابدين ميں هے  :

(و) شرط (حضور) شاهدين أو حر وحرتين (مكلفين سامعين قولهما معا)على الأصح (فاهمين) أنه نكاح على المذهب بحر مسلمين لنكاح مسلمة ولو فاسقين أو محدودين في قذف

(قوله: وشرط حضور شاهدين) أي يشهدان على العقد(حرين)

(كتاب النكاح:21/3،ط:سعید)

2۔ اگر عاقلہ بالغہ  لڑکی والدین کی اجازت کے بغیر  مجلس نکاح میں گواہان کی موجودگی میں  کسی مرد کے ساتھ نکاح کا ایجاب کرے اور مرد اسے قبول کرلے تونکاح شرعاً منعقد  ہو جاتا ہے۔البتہ اگر مرد،لڑکی کا کفو( یعنی حسب و نسب ،حریت ،مال و دولت  ،دینداری ،اور پیشہ میں  برابر) نہ ہو تو ایسی صورت میں  لڑکی کے اولیاء کوبذریعہ عدالت  نکاح فسخ کرنے کا حق ہوگا۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين میں ہے:

(وينعقد) متلبسا (بإيجاب) من أحدهما (وقبول) من الآخر (وضعا للمضي)

(کتاب النکاح:3/9،ط:سعید)

الفتاوى الهندية میں ہے:

(الباب الخامس في الأكفاء) الكفاءة معتبرة في الرجال للنساء للزوم النكاح۔۔۔۔ ومنها إسلام الآباء۔۔۔۔۔ ومنها الحرية۔۔۔۔۔ ومنها الكفاءة في المال۔۔۔۔۔۔ومنها الديانة۔۔۔۔۔۔ ومنها الحرفة

(كتاب النكاح،الباب الخامس في الأكفاء في النكاح:1/ 290،ط:دارالفكر)

حاشیۃ ابن عابدین میں ہے:

(قوله الكفاءة معتبرة) قالوا معناه معتبرة في اللزوم على الأولياء حتى أن عند عدمها جاز للولي الفسخ. اهـ. فتح وهذا بناء على ظاهر الرواية من أن العقد صحيح، وللولي الاعتراض

(کتاب النکاح،فصل فی الکفاءۃ:3/884،ط:سعید)

الفتاوى الهندية  میں ہے:

ثم المرأة إذا زوجت نفسها من غير كفء صح النكاح في ظاهر الرواية عن أبي حنيفة - رحمه الله تعالى - وهو قول أبي يوسف - رحمه الله تعالى - آخرا وقول محمد - رحمه الله تعالى - آخرا أيضا حتى أن قبل التفريق يثبت فيه حكم الطلاق والظهار والإيلاء والتوارث وغير ذلك ولكن للأولياء حق الاعتراض

(كتاب النكاح،الباب الخامس في الأكفاء في النكاح:1/ 292،ط:دارالفكر)

3۔ جب لڑکاخود  مجلسِ نکاح میں موجود ہو اور خود قبول کرے تو نکاح شرعاً منعقد ہو جاتا ہے ، مجلس ِ نکاح میں لڑکے کےعرفی نام لینے اور نکاح نامہ میں  عرفی نام لکھنے  سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے۔

«الفتاوى الهندية» میں ہے:

الباب الثاني فيما ينعقد به النكاح وما لا ينعقد به (وأما شروطه) ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔(ومنها) أن يكون الزوج والزوجة معلومين۔

(کتاب النکاح،الباب الأول في تفسير النكاح شرعا وصفته وركنه وشرطه وحكمه:1/ 267،ط:دار الفکر)

باقی زیر نظر مسئلے میں سائل کی بہن کے نکاح کے وقت چونکہ گواہان موجود نہیں تھے  ، اس لیے  سائل کی بہن کا مذکورہ لڑکے سے نکاح منعقد ہی نہیں ہوا ، جتنا عرصہ ساتھ رہے ، ناجائز ساتھ رہے ، اس پر دونوں خوب توبہ و استغفار کریں ۔

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144303100930

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں