بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

طلاق کے بعد سسرال والوں سے تعلقات اور ان کی تقریبات میں شرکت کرنے کا حکم


سوال

ہمارے معاشرے میں اگر کسی عورت کو طلاق ہو جائے تو عموماً مرد و عورت کے خاندان میں بہت دوریاں ہو جاتی ہیں،  عموماً  دونوں خاندان ایک دوسرے سے ملنا اور کوئی تعلق رکھنا پسند نہیں کرتے۔

اسی تناظر میں آپ سے چند سوالات کے جوابات مطلوب ہیں:

۱۔کیا طلاق کے بعد عورت کا اپنے سسر اور داماد کا اپنی خوش دامن سے پردہ شروع ہو جاتا ہے؟

۲۔کیا طلاق کے بعد عورت اپنے سسر ، ساس، نند ،جیٹھانی ،دیورانی وغیرہ دوسری عورتوں سے اور مرد اپنی خوشدامن اور خسر، سالوں  وغیرہ دوسرے مردوں سے ملنے جا سکتے ہیں؟

۳۔کیا طلاق کے بعد مرد  و عورت اپنی اپنی سسرال کی تقاریب میں شرکت کر سکتے ہیں؟

۴۔اگر سسرال والے ان کو اپنی کسی تقریب میں بلانا  چاہیں اور مرد و عورت نہ جائیں،  تو کیا ان کا یہ عمل درست ہے؟

۵۔اگر طلاق کے بعد  مرد و عورت اپنے  اپنے سسرال جانا چاہیں،  مگر ان کے سسرال والے یہ کہہ کر منع کر دیں کہ اب ہمارا تمہارا کوئی رشتہ نہیں، کیا  یہ درست ہے؟

۶۔کیا طلاق کے بعد مرد و عورت کا اپنے اپنے سسرال سے رشتہ ختم ہو جاتا ہے؟

۷۔کیا سسرال والے یا ماں باپ طلاق کے بعد ایک دوسرے کو بچوں سے ملنے سے روک سکتے ہیں؟

جواب

۱۔ نکاح کے بعد میاں بیوی میں سے ہر ایک  کے والدین دوسرے کے  ہمیشہ کے لیے  محرم بن جاتے ہیں یعنی مرد کے لیے ساس اورعورت کے لیے سسر ہمیشہ کے لیے  محرم بن جاتا ہیں؛لہٰذا مرد کا ساس سے اور عورت کا اپنے سسرسےپردہ کرنا واجب نہیں ،اگر چہ  بعد میں میاں بیوی کا رشتہ ازدواجیت کسی وجہ سے ختم  ہی  کیوں نہ ہوجائے۔تاہم اگر وہ پردہ کرنا چاہیں تو اس میں کوئی حرج بھی نہیں۔

۲۔طلاق کے بعد عورت اپنے سسر ، ساس، نند ،جیٹھانی ،دیورانی وغیرہ دوسری عورتوں سے اور مرد اپنی خوشدامن اور خسر، سالوں  وغیرہ دوسرے مردوں سے ملنے جا سکتے ہیں۔

۳۔طلاق کے بعد مرد  و عورت اپنے اپنےسسرال کی تقاریب میں شرکت کر سکتے ہیں۔بشرط یہ کہ وہاں مرد و عورت کا اختلاط اور کوئی غیر شرعی امر کا ارتکاب نہ ہو۔

۴۔جب سسرال والے مرد و عورت کو اپنی کسی تقریب میں شرکت کی دعوت دیں تو مرد و عورت کا دعوت قبول کرتے ہوئے شرکت کرنا بہتر ہے ، کیوں کہ دعوت کو قبول کرنا سنت ہےاور  مسلمان كا حق  ہے،اس لیے بغير عذر كے  شركت  نہ کرنا بہتر نہیں ہے،  البتہ اگر  واقعی عذر  ہو تو   نہ جانے میں کوئی حرج نہیں ۔ 

۵۔اگر طلاق کے بعد  مرد و عورت اپنے  اپنے سسرال جانا چاہیں توسسرال والوں کو منع کرنا مناسب نہیں ہے،تاہم  ان کو منع کرنے کا حق  حاصل ہے۔

۶۔طلاق کے بعد  مرد و عورت کا ازدواجی رشتہ تو ختم ہوجاتا ہے، البتہ دینی اور اسلامی  رشتہ برقرار رہتا ہے۔

۷۔طلاق کے بعدسسرال والے یا ماں باپ  ایک دوسرے کو بچوں سے ملنے سے نہیں روک سکتے ہیں،اگر وہ ایسا کریں گے تو گناہ گار ہوں گے۔

قرآن کریم میں  اللہ تعالی  کا ارشاد ہے:

{إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ إِخۡوَةٌ}

 [الحجرات: 10] 

 صحيح البخاری میں ہے:

"قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ترى المؤمنين في تراحمهم وتوادهم وتعاطفهم، كمثل الجسد، إذا اشتكى عضوا تداعى له سائر جسده بالسهر والحمى."

(کتاب الأدب، باب رحمة الناس،8/ 10، ط: السلطانية، مصر)

السنن الكبرى - للنسائي -  میں ہے:

"عن جابر قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «إذا دعي أحدكم فليجب، فإن شاء طعم، وإن شاء ترك»۔"

(كتاب الوليمة، ‌‌إجابة الدعوة إن لم يأكل: 6 / 208، ط: مؤسسة الرسالة)

شرح مشكل الآثار میں ہے:

"سعيدبن المسيب قال: حدثني أبو هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " حق المسلم على أخيه المسلم خمس: يسلم عليه إذا لقيه، ويشمته إذا عطس، ويجيبه إذا دعاه، ويعوده إذا مرض، ويشهد جنازته إذا مات "۔

(‌‌باب بيان مشكل ما روي عن رسول الله صلى الله عليه وسلم في الطعام الذي يجب على من دعي عليه إتيانه: 8 / 33، ط: مؤسسة الرسالة)

الدر المختار و حاشیۃ ابن عابدین میں ہے:

"(وينظر الرجل من الرجل) ... (سوى ما بين سرته إلى ما تحت ركبته) ... (ومن محرمه) هي من لا يحل له نكاحها أبدا بنسب أو سبب ولو بزنا.

و في الرد: (قوله: أو سبب) كالرضاع والمصاهرة (قوله ولو بزنا) أي ولو كان عدم حل نكاحها له بسبب زناه بأصولها أو فروعها۔"

(‌‌کتاب الحظر و الإباحة، فصل في النظر والمس: 6/ 367، ط: سعید)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"الولد متى كان عند أحد الأبوين لا يمنع الآخر عن النظر إليه وعن تعاهده كذا في التتارخانية ناقلا عن الحاوي."

(کتاب الطلاق، الباب السادس عشر، فصل فی الحضانة، 543/1، ط: رشیدية)

الدر المختار و حاشیۃ ابن عابدین میں ہے:

"وفي السراجية: إذا سقطت حضانة الأم وأخذه الأب لا يجبر على أن يرسله لها، بل هي إذا أرادت أن تراه لا تمنع من ذلك.

و في الرد: (قوله: لا يجبر على أن يرسله) وكذا يقال في جانبها وقت حضانتها."

(باب النفقة، 3 / 571، ط: سعید)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144305100790

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں