بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

5 ذو القعدة 1445ھ 14 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

نیند کی گولیاں کھا کر طلاق دینے کا حکم


سوال

میری شادی ڈیڑھ سال قبل ہوئی ہے اور ایک بیٹا 4 ماہ کا ہے۔ ہم میاں بیوی کی اتنے عرصے تک آپس میں تلخ کلامی رہی ہے، کیونکہ میں ملازمت کے سلسلے میں گھر سے دور ہوتا ہوں، ایک دو ماہ بعد پانچ یا دس دن کے لئے گھر آتا ہوں، پھر واپس اپنی ملازمت پہ چلا جاتا ہوں اور بیوی اپنے میکے میں رہتی ہے۔ جب میری گھر واپسی ہوتی ہے تو اس کو بتاتا ہوں تو وہ میرے گھر اتنے دنوں تک میرے ساتھ ہوتی ہے، میرے واپس ملازمت پہ جانے کے بعد وہ پھر سے اپنے میکے چلی جاتی ہے۔ یہ بات مجھے بہت ناگوار لگتی ہے۔ میرا مقصد ہوتا ہے کہ میری بیوی میرے جانے کے بعد بھی میرے ہی گھر میں میری والدہ اور بہنوں کے ساتھ ہی رہے۔ اس بات پر مسلسل تلخ کلامی رہی ہے، اور اگر میں اس کو کہیں جانے سے منع کرتا ہوں تو وہ میری ایک بھی بات نہ سنتی  ہے،اور اپنی مرضی سے جب چاہتی ہے میرے گھر سے میری اجازت کے بغیر نکل جاتی ہے۔ اور محرم یا غیر محرم کی بھی پرواہ کیے بغیر اپنے کزن کے ساتھ میرے گھر سے چلی جاتی ہے اور اپنی مرضی سے واپس آتی ہے۔

ان پریشانیوں کی وجہ سے میں ڈپریشن کا شکار ہوگیا اور نیند کی گولیاں مسلسل کھانا شروع کردیں، اس حد تک کہ میں نہ رات دیکھتا نہ دن، جب بھی پریشانی ہوتی تو نیند کی نشہ آور گولیاں کھاتا رہتا، پھر دن ہو یا رات اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔

اس بار جب میں سفر سے اپنے گھر واپس آیا تو میری بیوی کا مجھ سے موڈ خراب ہی رہا، نہ مجھے کھانا دیتی اور نہ میرا خیال رکھتی اور اگر میں اپنے بچے کو اٹھاتا تو مجھ سے چھین کر لے جاتی اور بچے کو اٹھانے نہیں دے رہی تھی، یہ سلسلہ 3 دن تک جاری رہا اور ان تین دنوں میں میری بیوی اپنے کزن کے ساتھ میرے منع کرنے کے باوجود اپنے میکے دو دن تک گئی، صبح کو جاتی پھر شام کو واپس آجاتی جب میں میں نے پوچھا کہ کیوں  جاتی ہو تو کہتی کہ بچہ بیمار ہے۔ اس کو دم کروانے کے  لیے جاتی ہوں۔ یہ بات مجھے بہت ہی نا مناسب لگی۔

تیسرے دن صبح کو گیارہ بجے ہمارا جھگڑا ہوا وہ اس بات پر ہوا کہ گھر میں رات کو لائیٹ لوڈ شیڈنگ کی وجہ سے گئی ہوئی تھی تو میں کمرہ سے باہر سو گیا ،رات کو دو بجے آنکھ کھلی تو مجھے سردی لگ رہی تھی، میں نے کمرہ میں جانا چاہا تو میری بیوی نے کمرہ کا دروازہ اندر سے بند کر رکھا تھا، میں نے دروازہ بہت بجایا لیکن میری بیوی نے ایک بھی نہ سنی اور دروازہ نہیں کھولا، مجبور ہوکر میں  باہر سو گیا، صبح ہوتے ہی اندر جاکے سویا، 9 بجے اٹھا تو میں نے اپنی بیوی سے ناشتہ اور چائے طلب کی، تو اس نے الٹے جواب دیئے اور مجھے چائے نہیں دی اور کہنے لگی کہ خود بنا کے پیو، اس ٹاپک پہ تلخ کلامی ہوئی اور مجھے گالیاں دینے لگی تو میں گھر سے باہر نکل گیا اور ہوٹل پہ چائے پی۔

پھر نشہ آور ٹیبلیٹس کھائی جو کہ میری روٹین تھی اس کے بعد میں نے اس کے والد  یعنی اپنے سسر کو فون کرکے اپنے گھر بلایا وہ بھی اس لیے کہ اپنی بیٹی کو سمجھائے تاکہ وہ اس قسم کی حرکات سے باز آجائے اور گھر میں میرے ساتھ صحیح طریقے سے خوشگوار زندگی گزارے، لیکن جب اس کے والد میرے گھر آئے تو میری بیوی اپنے والد کو منع کرنے لگی کہ اس کی بات نہیں سنو اور مجھے گالیاں دینے لگی اور اگر اس کے والد میری بات سننے کے لئے میری طرف متوجہ ہوئے تو ان کو بھی گالیاں دینے لگی تو میں نے  ان کو کہا کہ اپنی بیٹی کو لے جائیں، ایک دو دن میں دماغ ٹھنڈا ہو جائے تو واپس چھوڑ جانا، لیکن ہوا اس طرح کہ  ان  کے والد بھی مجھ پہ غصہ کرنے لگے اور میری بیوی اپنے والد کو کہنے لگی کہ جب تک یہ مجھے طلاق نہیں دےگا تب تک میں اس گھر سے نہیں جاؤں گی اور پھر مجھے بھی کہنے لگی کہ مجھے ابھی کے ابھی طلاق دے تو پھر گھر جاؤں گی ایسے نہیں، میں نے بھی نیند کی  گولیاں کھا رکھی تھی میں نے اس کے کہنے پر اپنی بیوی کو اس کے والد کے سامنے طلاق کے یہ الفاظ کہے کہ" میں نے تجھے طلاق دی، میں نے تجھے طلاق دی، میں نے تجھے طلاق دی "اور میری بیوی کا کہنا ہے کہ میں نے طلاق کے الفاظ کچھ اس طرح دہرائے ہیں کہ"طلاق طلاق طلاق طلاق "یہ الفاظ میں نے چار یا پانچ بار دہرائے ہیں، چوں کہ مجھے الفاظ صحیح یاد نہیں ہے کہ میں نے کون سے الفاظ کہے ہیں  کیوں کہ میں  نشہ کی حالت میں تھا اور میں نے یہ الفاظ 10 سیکنڈ میں اتنی مرتبہ دہرائے ہیں، پھر اس کے والد کو کہا کہ اب میں نے اس کو طلاق دے دی ہے،  اب لے جاؤ اس کو تو اس کے والد اپنی بیٹی کو میرے گھر سے لے گئے، میں نے  چوں کہ گولیاں کھا رکھی تھیں  جس کی وجہ سے نشے میں تھا تو میں نے بھی یہ الفاظ کہنے میں دیر نہیں کی۔

اب آپ حضرات قرآن و حدیث کی روشنی میں جواب عنایت فرمائیں کہ کیا طلاق واقع ہو گئی ہے یا میرا اپنی بیوی بچہ کے ساتھ رہنے کی کوئی گنجائش ہے؟

جواب

واضح رہے کہ نیند کی گولیاں اگر نشے کے لیے کھائی جائیں اور اس حالت میں طلاق دی جائے تو طلاق واقع ہوجاتی ہے لہذاسائل کی بیوی پر تینوں طلاقیں واقع ہوگئی ہیں،    نکاح ختم ہوگیا ہے۔سائل کی بیوی اس پر  حرمتِ مغلظہ کے ساتھ حرام ہوگئی ہے،  اب رجوع کرنا یا دوبارہ  نکاح کرنا جائز نہیں ہے۔ مطلقہ  اپنی  عدت (مکمل تین ماہ واریاں اگر حمل نہ ہو، اور حمل ہونے کی صورت میں بچہ کی پیدائش تک) گزار کر    دوسری جگہ شرعاً   نکاح کرسکتی ہے۔

 ہاں اگر مطلّقہ     عدت گزارنے کے بعد کسی  دوسرے شخص سے نکاح کرلے، پھر وہ  دوسرا شخص اس سے ازدواجی تعلق قائم کرنے کے بعد از خود  طلاق دے دے یا  عورت  خود طلاق لے لے یا شوہر کا انتقال ہوجائے  تو پھر اس کی  عدت گزار کر پہلے شوہر (سائل)   سےدوبارہ  نکاح کرنا جائز ہوگا۔

باقی  سائل کی بیوی اگر سائل سے یا کہیں اور نکاح نہیں کرتی تو بچہ سات سال کی عمر تک ماں کی پرورش میں رہے گا، اس دوران سائل بچے سے ملاقات کرسکتا ہے، سات سال کے بعد سائل بچے کو لینے کا حق دار ہوگا، اور بہرصورت اس دوران بچے کا خرچے سائل کے ذمے ہوگا۔ اور اگر  عورت کہیں اور نکاح کرکے دوسرے شخص کے ساتھ ہی زندگی گزارتی ہے اور وہ شخص سائل کے بچے کا محرم نہ ہو تو پھر بچے کی عمر سات سال ہونے تک اس کی پرورش کا حق بچے کی نانی کو ہوگا۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(أو سكران) و لو بنبيذ أو حشيش  أو أفيون أو بنج زجرًا، و به يفتى، تصحيح القدوري، و اختلف التصحيح فيمن سكر مكرهًا أو مضطرًّا، نعم لو زال عقله بالصداع أو بمباح لم يقع. و في القهستاني معزيًا للزاهدي: أنه لو لم يميز ما يقوم به الخطاب كان تصرفه باطلًا. اهـ. 

(قوله:  أو أفيون أو بنج) الأفيون: ما يخرج من الخشخاش. البنج: بالفتح نبت منبت. وصرح في البدائع وغيرها بعدم وقوع الطلاق بأكله معللا بأن زوال عقله لم يكن بسبب هو معصية. والحق التفصيل، و هو إن كان للتداوي لم يقع لعدم المعصية، وإن للهو وإدخال الآفة قصدا فينبغي أن لا يتردد في الوقوع.

وفي تصحيح القدوري عن الجواهر: وفي هذا الزمان إذا سكر من البنج والأفيون يقع زجرا، وعليه الفتوى، وتمامه في النهر (قوله:  زجرا) أشار به إلى التفصيل المذكور، فإنه إذا كان للتداوي لا يزجر عنه لعدم قصد المعصية ط."

(3 / 239، كتاب الطلاق، ط:سعيد)

بدائع الصنائع میں ہے:

"وأما الطلقات الثلاث فحكمها الأصلي هو زوال الملك، وزوال حل المحلية أيضا حتى لا يجوز له نكاحها قبل التزوج بزوج آخر؛ لقوله - عز وجل - {فإن طلقها فلا تحل له من بعد حتى تنكح زوجا غيره}، وسواء طلقها ثلاثا متفرقا أو جملة واحدة."

(3/187، فصل في حكم الطلاق البائن، کتاب الطلاق، ط: سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144409101133

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں