بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

7 ذو القعدة 1445ھ 16 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

نیلامی میں خریداری کے حق کی خرید و فروخت اور پیسے کے عوض حق خریداری سے دست بردار ہونے کا حکم


سوال

نیلامی کی بیع کے اندر دیگر خریدار لوگوں کو کچھ پیسہ  دے کر حقِّ  خریداری سے دست بردار کردینا شرعًا کیسا ہے؟ اور حقِّ  خریداری سے دست بردار ہونے  کے لیے پیسہ  لینا کیسا ہے؟  جیسا کہ بائع نے مبیع  کی قیمت نیلامی میں ایک لاکھ روپے لگائی اور میں  مبیع کی قیمت کو بڑھنے سے روکنے  کے لیے دیگر مشتری حضرات کو کچھ پیسے دے کر حقِّ  خریداری  سے روک دیتا ہوں کہ آپ ایک طرف ہوجاؤ؛  تاکہ مبیع میں بائع کی مقرر کردہ قیمت پر خرید لوں تو اس طر ح میرا دیگر مشتریوں کو پیسہ دینا اور ان کا پیسہ لینا ٹھیک ہے یا نہیں ؟ شریعتِ  مطہرہ کی روشنی میں وضاحت فرمادیں!

جواب

واضح رہے کہ شرعًا حقوقِ  مجردہ کی بیع شرعًا جائز نہیں ہے، لہٰذا صورتِ  مسئولہ میں آپ کا نیلامی کے شرکاء خریداروں کو  پیسے دے کر ان سے خریداری کا حق خریدنا اور خریداروں کا پیسے کے عوض اپنا خریداری کا حق بیچنا شرعًا جائز نہیں ہے؛ کیوں کہ خرید و فروخت کے جائز ہونے کی  ایک شرط یہ ہے کہ جو چیز خریدی یا بیچی جارہی ہے وہ مال ہو، جب کہ صورتِ  مسئولہ میں مجرد (خالی) حق کی خرید و فروخت کی جارہی ہے جو کہ شرعًا جائز نہیں ہے، اس کے علاوہ مذکورہ معاملہ کے ناجائز ہونے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اس طرح نیلامی میں مبیع کی قیمت کو بڑھنے سے روکنے کے  لیے نیلامی کے شرکاء کو خریداری سے روکنا بائع (فروخت کنندہ) کے حق میں غرر (دھوکا دہی) اور ضرر (نقصان) پر مشتمل ہے؛ کیوں کہ اس طرح نیلامی میں شریک مبیع کی خریداری کے خواہش مند لوگوں کو خریداری سے روکنے سے نیلامی کا مقصد فوت ہوجائے گا  جس سے بائع کو نقصان ہوگا، لہٰذا جس طرح بائع کا مبیع کی قیمت مصنوعی طور پر بڑھانے کے لیے  نیلامی میں جعلی خریدار   شریک کرنا جائز نہیں ہے، اسی طرح خریدار کا مبیع کی قیمت کو بڑھنے سے روکنے کی مصنوعی کوشش کرنا اور بائع کو نقصان پہنچانا بھی جائز نہیں ہے۔

الأشباه و النظائر میں ہے :

’’الحقوق المجردة لايجوز الاعتياض عنها ‘‘. (1/212)

فتاوی شامی میں ہے :

"وأفتى في الخيرية أيضًا بأنه لو فرغ عن الوظيفة بمال فللمفروغ له الرجوع بالمال لأنه اعتياض عن حق مجرد وهو لايجوز صرحوا به قاطبةً، قال: ومن أفتى بخلافه فقد أفتى بخلاف المذهب لبنائه على اعتبار العرف الخاص وهو خلاف المذهب والمسألة شهيرة وقد وقع فيها للمتأخرين رسائل واتباع الجادة أولى والله أعلم."

 (رد المحتار4/ 383ط:سعيد)

فتاوی شامی میں ہے :

’’و فيها: وفي الأشباه: لايجوز الاعتياض عن الحقوق المجردة، كحق الشفعة، وعلى هذا لايجوز الاعتياض عن الوظائف بالأوقاف‘‘. (4/518)

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (5/ 101):

’’ (و) كره (النجش) بفتحتين ويسكن: أن يزيد ولا يريد الشراء أو يمدحه بما ليس فيه ليروجه ويجري في النكاح وغيره. ثم النهي محمول على ما (إذا كانت السلعة بلغت قيمتها، أما إذا لم تبلغ لا) يكره لانتفاء الخداع عناية (والسوم على سوم غيره) ولو ذميا أو مستأمنا،وذكر الأخ في الحديث ليس قيدا بل لزيادة التنفير نهر، وهذا (بعد الاتفاق على مبلغ الثمن) أو المهر (وإلا لا) يكره؛ لأنه بيع من يزيد، «وقد باع - عليه الصلاة والسلام - قدحا وحلسا ببيع من يزيد» (وتلقي الجلب) بمعنى المجلوب أو الجالب، وهذا (إذا كان يضر بأهل البلد أو يلبس السعر) على الواردين لعدم علمهم به فيكره للضرر والغرر (أما إذا انتفيا فلا) يكره.‘‘

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144206200737

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں