بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

4 ذو القعدة 1445ھ 13 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

نیک کام کےارادے کےوقت ریا کاخیال آنےکاحکم


سوال

میں نے سوچا کہ میں درس نظامی پڑھ لوں؛ کیوں کہ مجھے دین سے لگاؤ بھی ہے، اور تبلیغ کا کام بھی کرنا چاہتا ہوں ،کچھ عرصہ کے بعد میرے دل میں ریا آئی  کہ لوگ مجھے عالمِ دین ،مولانا،حضرت ،جیسے الفاظ سے پکاریں گے، اچھا لگے گا ،پھر مجھے وہ حدیث یاد آئی، جس میں قیامت والے دن اللہ تعالی عالم کو جہنم میں ڈال دیں گے ،جس نے صرف عالم کہلانے کے لیے دین کا کام کیا،اب میں پریشان ہوں کہ کیا کروں؟عالم کا کورس کروں یا نہیں؟ میری اصلاح فرمائیں ۔

جواب

واضح رہےکہ جونیک عمل لوگوں کودکھانےکےلیےکیاجائے،وہ  ریاءکےزمرہ میں آتاہے،اوروہ عمل باعثِ ثواب کےبجائےباعثِ وبال بن جاتاہےالبتہ اگرکوئی آدمی اللہ کی رضاوخوشنودی کےلیےکسی میں لگاہو،یالگنےکاارادہ کرلے،تواس عمل کوصرف ریاکےخوف سےچھوڑدینےکوخودبزرگانِ امت نےناپسندفرمایاہے،بلکہ اس کوبھی"ریا"کہاہے؛لہذاسائل نیک نیتی کےساتھ اپنےنیک ارادوں کوعمل میں لانےکی کوشش کریں،اورمحض وسوسوں کی بنیادپراعمالِ صالحہ کونہ چھوڑیں،اورساتھ ساتھ کسی نیک اللہ والےسے اصلاحی تعلق قائم کریں۔

تفسیرِ بغوی میں ہے:

"قال سعيد بن جبير: الإخلاص أن يخلص العبد دينه وعمله فلا يشرك به في دينه ولا يرائي بعمله قال الفضيل: ‌ترك ‌العمل ‌لأجل ‌الناس ‌رياء، والعمل من أجل الناس شرك، والإخلاص أن يعافيك الله منهما."

(١٥٧/١،ط:دار طيبة للنشر والتوزيع)

فتح الباری میں ہے:

"‌الرياء بكسر الراء وتخفيف التحتانية والمد وهو مشتق من الرؤية والمراد به إظهار العبادة لقصد رؤية الناس لها فيحمدوا صاحبها والسمعة بضم المهملة وسكون الميم مشتقة من سمع والمراد بها نحو ما في ‌الرياء لكنها تتعلق بحاسة السمع والرياء بحاسة البصر وقال الغزالي المعنى طلب المنزلة في قلوب الناس بأن يريهم الخصال المحمودة والمرائي هو العامل وقال بن عبد السلام ‌الرياء أن يعمل لغير الله والسمعة أن يخفي عمله لله ثم يحدث به الناس."

(الجزء11،باب الرياء والسمعة،٣٣٦/١١،ط:دار المعرفة)

وفیہ ایضاً:

"قال النووي رحمه الله: واعلم أنه كما يستحب الذكر يستحب الجلوس في حلق أهله، وهو قد يكون بالقلب، وقد يكون باللسان، وأفضل منهما ما كان بالقلب واللسان جميعا، فإن اقتصر على أحدهما، فالقلب أفضل، وينبغي أن لا يترك الذكر باللسان مع القلب بالإخلاص خوفا من أن يظن به الرياء، وقد نقل عن الفضيل: ترك العمل لأجل الناس رياء، والعمل لأجل الناس شرك. والإخلاص أن يخلصك الله منهما، لكن لو فتح الإنسان على نفسه باب ملاحظة الناس والاحتراز عن طرق ظنونهم الباطلة لانسد عليه أكثر أبواب الخير اهـ."

(كتاب الدعوات،باب ذكر الله عز وجل والتقرب إليه،١٥٥٣/٤،دار الفكر)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144501102171

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں