بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

نیک کام میں اللہ اور رسول کی رضامندی کی نیت


سوال

حضرت میں نے ایک مفتی سے سوال کیا کہ آدمی جب کسی کو پانی پلائے یا کوئی بھی نیک کام کرے تو اس وقت کیا نیت رکھے؟ اللہ راضی ہو یا اس کا رسول راضی ہو؟، تو انہوں نے کہا کے دونوں میں سے کوئی بھی نیت کرلو، کیوں کہ اللہ کے رسول راضی تو اللہ راضی، حضرت کیا یہ ٹھیک ہے یا شرک ہے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں کسی بھی نیک کام کے کرنے پر اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے راضی ہونے سے مراد اس کام کی پسندیدگی ہے، لہذا کسی بھی نیک کام کرتے وقت دونوں کی رضامندی کی نیت کرنا درست ہے، کیوں کہ محبوبِ آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی رضامندی بھی درحقیقت اللہ تعالیٰ ہی کی رضامندی ہے، قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے اطاعت رسول کو اطاعت الٰہی قرار دیا ہے، لیکن اگر کسی نیک  کام کے کرنے سے مراد عبادات مقصودہ (مثلاً نماز/ روزہ/ صدقہ وغیرہ) ہے، تو اس کی نیت صرف اللہ تعالیٰ کی جاسکتی ہے، عبادتِ مقصودہ کی نیت اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی اور کے لئے نہیں کی جاسکتی، اور اس نیک کام پر اجر وثواب صرف اللہ تعالیٰ دیتا ہے۔

الموسوعة الفقهية الكويتية"میں ہے:

"أ - القربة:  هي: ما يتقرب به إلى الله فقط، أو مع الإحسان للناس كبناء الرباط والمساجد، والوقف على الفقراء والمساكين.

ب - الطاعة:   هي: موافقة الأمر بامتثاله سواء أكان من الله أم من غيره  ، قال تعالى: {أطيعوا الله وأطيعوا الرسول وأولي الأمر منكم} 

قال ابن عابدين: بين هذه الألفاظ (العبادة - القربة - الطاعة) عموم وخصوص مطلق.

فالعبادة: ما يثاب على فعله، وتتوقف صحته على نية، والقربة: ما يثاب على فعله بعد معرفة من يتقرب إليه به، ولم يتوقف على نية، والطاعة: ما يثاب على فعله توقف على نية أم لا، عرف من يفعله لأجله، أم لا . فالصلوات الخمس، والصوم، والزكاة، وكل ما تتوقف صحته على نية: عبادة، وطاعة، وقربة."

(عبادۃ، الألفاظ ذات الصلۃ، ج:29، ص:257، ط:مکتبہ امیر حمزہ)

معالم التنزیل (تفسير البغوي ) میں ہے:

"قوله تعالى: { قُلْ إِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللَّهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُم اللَّه } نزلت في اليهود والنصارى حيث قالوا: نحن أبناء الله وأحباؤه، وقال الضحاك عن ابن عباس رضي الله عنهما: وقف النبي صلى الله عليه وسلم على قريش وهم في المسجد الحرام وقد نصبوا أصنامهم وعلقوا عليها بيض النعام وجعلوا في آذانها( الشُّنوُف ) وهم يسجدون لها، فقال: يا معشر قريش والله لقد خالفتم ملة أبيكم إبراهيم وإسماعيل" فقالت له قريش إنما نعبدها حبًا لله ليقربونا إلى الله زلفى، فقال الله تعالى: قل يا محمد إن كنتم تحبون الله وتعبدون الأصنام ليقربوكم إليه فاتبعوني يحببكم الله، فأنا رسوله إليكم وحجته عليكم، أي اتبعوا شريعتي وسنتي يحببكم الله فحب المؤمنين لله اتباعهم أمره وإيثار طاعته وابتغاء مرضاته، وحب الله للمؤمنين ثناؤه عليهم وثوابه لهم وعفوه عنهم فذلك قوله تعالى: { وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ وَاللَّه غَفُورٌ رَحِيمٌ } ".

(سورۃ آلِ عمران، رقم الآیۃ:31، ج:2، ص:27، ط:دارُ الطیّبۃ)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144407100661

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں