اگر رمضان میں عورت کو نفاس آیا پندرہ دن کے بعدخون رُک گیا پانچ دن کے بعد پھرشروع ہوا اب رُکنے کےبعد کیا روزہ لازم ہے؟
صورتِ مسئولہ میں عورت کاپندرہ دن کےبعد خون کابندہونااور پانچ دن کےبعددوبارہ خون کاجاری ہونا اور وہ پانچ دن جن میں خون بندرہاہےوہ بھی جاری خون کی مانند شمار ہوں گے، اور یہ بھی نفاس کےدن کہلائیں گے،پھر اگر یہ خون چالیس دن کے اندر اندر رک جائے تو تمام ایام ہی نفاس کے شمار ہوں گے، اور اگر چالیس دن سے زیادہ جاری رہا تو اگر پہلی ولادت ہو تو چالیس دن نفاس اور باقی استحاضہ ہوگا،اور اگر پہلے سے کوئی عادت ہو تو ایامِ عادت کے مطابق نفاس شمار ہوگا، باقی استحاضہ ہوگا، لہٰذا صورت مسئولہ میں اگر پہلی ولادت کے وقت عادت پندرہ دن ہی کی تھی تو پھر پندرہ دن ہی نفاس شمار ہوگا اور باقی سب دن بیماری کا خون ہوگا، لہٰذا ایام عادت پندرہ دن کےعلاوہ باقی جتنےدن ہیں اس میں روزہ رکھنا ضروری ہے۔
فتاویٰ شامی میں ہے:
"لأن من أصل الإمام أن الدم إذا كان في الأربعين فالطهر المتخلل لا يفصل طال أو قصر، حتى لو رأت ساعة دما وأربعين إلا ساعتين طهرا ثم ساعة دما كان الأربعون كلها نفاسا وعليه الفتوى."
(كتاب الطهارة، باب الحيض، ج:1، ص:299، ط: سعيد)
فتاویٰ ہندیہ میں ہے:
"الطهر المتخلل في الأربعين بين الدمين نفاس عند أبي حنيفة - رحمه الله تعالى - وإن كان خمسة عشر يوما فصاعدا وعليه الفتوى."
(كتاب الطهارة، الفصل الثاني في النفاس، ج:2، ص:37، ط: دار الفكر بيروت)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144409101187
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن