بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

نابالغ بچوں کی طرف سے زکوۃ ادا کرنا


سوال

میری بیگم کاانتقال ہوامرحومہ نےمیراث میں کچھ زیورات چھوڑ ےہیں، میرے پانچ بچے ہیں،اگر یہ زیور پانچوں میں تقسیم ہو جائیں تو کوئی بھی زکات دینے کا اہل نہیں ہو گا؛کیوں کہ وہ ابھی نابالغ ہیں،اس صورتِ حال میں کیا مجھےاپنےبچوں کی طرف سےزکات ادا کرناضرروری ہے؟

جواب

جس طرح نماز ،روزہ  ، حج اور دیگر عبادات نابالغ پر فرض نہیں ہیں ،اسی طرح اس پر زکاۃ بھی فرض نہیں ہے ؛ لہذا اگر بچہ صاحبِ نصاب ہے تب بھی نابالغ ہونے کی وجہ سے اس کے مال پر زکاۃ  واجب نہیں ہوگی ، اور ولی کے ذمے بھی نابالغ کے مال سے زکاۃ ادا کرنا لازم نہیں ہوگا،لہٰذاصورتِ مسئولہ میں اگرواقعۃً آپ کے  بچے نابالغ ہیں تو ان پرزکات واجب نہیں ہے اور نہ ہی  آپ پربچوں کے مال کی زکوٰۃ اداکرناضروری  ہے۔باقی مرحومہ کے ترکہ میں  سائل (شوہر) کا حصہ 1/4 ہے ، باقی تین حصے اولاد میں شرعی حساب سے تقسیم ہوں گے۔

سنن ابوداؤد میں ہے:

"عن علي، عن النبي - صلى الله عليه وسلم - قال: "‌رفع ‌القلم عن ثلاثة: عن النائم حتى يستيقظ، وعن الصبى حتى يحتلم، وعن المجنون حتى يعقل."

(كتاب الحدود، باب في المجنون يسرق أو يصيب حدا، ج:6، ص:455، ط: دار الرسالة العالمية)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(وشرط افتراضها عقل وبلوغ....(قوله عقل وبلوغ) فلا تجب على مجنون وصبي ‌لأنها ‌عبادة ‌محضة وليسا مخاطبين بها."

(‌‌كتاب الزكاة، ج:2، ص:258، ط: سعيد)

مجمع الانھر میں ہے:

"(وشرط وجوبها) (‌العقل ‌والبلوغ) إذ لا تكليف بدونها (والإسلام) لأنه شرط لصحة العبادات."

(كتاب الزكاة، شرط وجوب الزكاة، ج:1، ص:192، ط:المطبعة العامرة)

فتاویٰ ہندیہ میں ہے:

"ومنها الإسلام....(ومنها العقل والبلوغ) فليس الزكاة على صبي ومجنون."

(كتاب الزكاة، الباب الثاني في صدقة السوائم، ج:1، ص:176، ط: دار الفكر)

البنایہ شرح الہدایہ میں ہے:

"والبلوغ والعقل لما نذكره) ش: أي واشتراط البلوغ والعقل لما نذكره عن قريب وهو قوله: ‌وليس ‌على ‌الصبي ‌والمجنون زكاة م: (والإسلام) ش: أي واشتراط الإسلام في وجوب الزكاة."

(‌‌كتاب الزكاة، حكم مانع الزكاة، ج:3، ص:292، ط: دار الكتب العلمية)

کفایت المفتی میں ہے:

"(سوال) ایک شخص متوفی نے اس قدر مال چھوڑا کہ تمام اولاد کوترکہ میں مال بقدر نصاب پہنچا ان ورثا میں تین نابالغ لڑکے بھی ہیں کہ جو اپنے دو بھائی بالغ اور اپنی والدہ کی سرپرستی میں ہیں اب دریافت طلب یہ امر ہے کہ ان ہر سہ نابالغ اور صاحب نصاب لڑکوں کی طرف سے قربانی کا کیا حکم ہے آیا ا نکے ذمے قربانی واجب ہے یا نہیں ؟ نیز ان کے حصہ مال میں زکوٰ ۃ بھی واجب ہے یا نہیں ؟ ان لڑکوں کا مال ان کے بھائی تجارت میں بھی لگاتے ہیں ؟

(جواب ۲۲۳) نابالغ کے مال پر نہ زکوٰۃ واجب ہے نہ قربانی بالغ بھائیوں کو اپنی طرف سے قربانی کرنی چاہئیے۔ اور نابالغ کی طر ف سے نہیں کرنی چاہئیے ۔"

(زیرعنوان:نابالغ پرزکوٰہ اورقربانی واجب نہیں، کتاب الاضحیۃ والذبیحۃ، ج:8، ص:179، ط:ادارۃ الفاروق کراچی)

امدادالفتاویٰ میں ہے:

"(سوال)(1)ولی وسرپرست یتیم پرمال مال یتیم سے زکوٰۃ اداکرناواجب ہےیانہیں۔(2)اوریتیم صاحب نصاب پرزکوٰۃ واجب ہےیانہیں۔؟

(الجواب)نمبر1ونمبر2نہیں۔بلکہ جائز بھی نہیں۔"

(زیرعنوان:نابالغ پرزکوٰۃ نہیں، کتاب الزکاۃ والصدقۃ، ج:2، ص:59، ط:دارالعلوم کراچی )

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144503102830

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں