بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

نماز پڑھنے کی نذر مانی تو اس نماز کو بیٹھ کر پڑھنے کا حکم


سوال

کسی نے نفل نماز کی نذر مانی تو کیا اس کو بیٹھ کر پڑھنے سے نذر پوری ہوجائے گی؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں   اگر مذکورہ شخص معذور نہ ہو یعنی: کھڑے ہوکر نماز پڑھنے پر قادر ہو تو بیٹھ کر  پڑھنے سے مانی گئی نذر کی نماز ادا نہ ہوگی، اس لیے کہ نفلی نماز کی نذر ماننے سے اس نماز کی حیثیت واجب کی ہوجاتی ہے  ، لیکن اگر اس کو کوئی ایسا عذر ہو جس کی وجہ سے قیام (کھڑے ہونے) یا سجدہ  کرنے پر قادر نہ ہو تو پھر  بیٹھ کر نماز پڑھنے سے نماز درست ہوگی۔

الدر مع الرد میں ہے:

"(‌ومن ‌نذر ‌نذرا ‌مطلقا ‌أو ‌معلقا بشرط وكان من جنسه واجب) أي فرض كما سيصرح به تبعا للبحر والدرر (وهو عبادة مقصودة) خرج الوضوء وتكفين الميت (ووجد الشرط) المعلق به (لزم الناذر) لحديث «من نذر وسمى فعليه الوفاء بما سمى» (كصوم وصلاة وصدقة)واعلم أن النذر قربة مشروعة، أما كونه قربة فلما يلازمه من القرب كالصلاة والصوم والحج والعتق ونحوها وأما شرعيته فللأوامر الواردة بإيفائه، وتمامه في الاختيار."

[كتاب الأيمان، ج:3، ص:735، ط:سعيد]

وفيهما أيضا:

"(ومنها القيام) بحيث لو مد يديه لا ينال ركبتيه ومفروضة وواجبة ومسنونة ومندوبة بقدر القراءة فيه، فلو كبر قائما فركع ولم يقف صح لأن ما أتى به القيام إلى أن يبلغ الركوع يكفيه قنية (في فرض) وملحق به كنذر وسنة فجر في الأصح (لقادر عليه) وعلى السجود، فلو قدر عليه دون السجود ندب إيماؤه قاعدا، وكذا من يسيل جرحه لو سجد.

 (قوله: وسنة فجر في الأصح) أما عن القول بوجوبها فظاهر، وأما على القول بسنيتها فمراعاة للقول بالوجوب. ونقل في مراقي الفلاح أن الأصح جوازها من قعود ط."

[كتاب  الصلاة، باب شروط الصلاة، ج:1، ص:444، ط:سعيد]

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144403101844

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں