بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

نذر ونیاز کا حکم


سوال

یہ جو کہتے ہیں کہ نذرو نیاز کرنی چاہیے کیا یہ جائز ہے اسلام میں؟

جواب

عموماً ہمارے معاشرہ میں  لوگ نیاز میں  بزرگوں کے ایصالِ ثواب کے لیے یا اپنے فوت شدہ اقارب کے لیے کھانا وغیرہ بنواکر(اس پر فاتحہ وغیرہ پڑھ کر )اسے  تقسیم کرتے ہیں تو اس کا شرعی حکم یہ ہے کہ اگر یہ نیاز  ان ہی بزرگوں کے نام کی ہو،ان کی خوشنودگی   سے ان بزرگوں کا تقرب مقصود ہو تو  یہ حرام ہے، اس کا کھانا بھی جائز نہیں ہے؛  کیوں کہ یہ نذر لغیر اللہ ہے۔ اور اگر یہ نیاز اللہ کے نام،اور اللہ کی رضا کے لیے ہو، صرف  اس کا ثواب بزرگوں یا فوت شدگان کو پہنچایا جائے تو  شرعا جائز ہے،لیکن  چند شرائط ملحوظ رہیں:

1۔ اس کے لیے کوئی تاریخ  ، دن وغیرہ کی تخصیص نہ کی جائے۔

2۔  اس کو لازم اور واجب نہ سمجھا جائے، اور نہ کرنے والوں پر لعن طعن نہ کی جائے۔

3۔ جائز نذر مانی گئی ہو تو جو کھانا کھلانا ہو وہ صرف فقراء کو کھلائے، مال داروں کو نہ کھلائے۔

4۔  کوئی خلافِ شرع کام اس کے ساتھ نہ ملائے۔

5۔ جن دنوں میں اہلِ بدعت وغیرہ کا شعار ہو ان دنوں میں یہ نہ کیا جائے۔

درج بالا  شرائط کے ساتھ  ایصال ثواب کے لیےنیاز کرنا  جائز ہے۔

الدر المختار وحاشیہ ابن عابدین  میں ہے:

"واعلم أن النذر الذي يقع للأموات من أكثر العوام وما يؤخذ من الدراهم والشمع والزيت ونحوها إلى ضرائح الأولياء الكرام ‌تقربا ‌إليهم فهو بالإجماع باطل وحرام ما لم يقصدوا صرفها لفقراء الأنام وقد ابتلي الناس بذلك.

مطلب في النذر الذي يقع للأموات من أكثر العوام من شمع أو زيت أو نحوه (قوله تقربا إليهم) كأن يقول يا سيدي فلان إن رد غائبي أو عوفي مريضي أو قضيت حاجتي فلك من الذهب أو الفضة أو من الطعام أو الشمع أو الزيت كذا بحر (قوله باطل وحرام) لوجوه: منها أنه نذر لمخلوق والنذر للمخلوق لا يجوز لأنه عبادة والعبادة لا تكون لمخلوق. ومنها أن المنذور له ميت والميت لا يملك.

ومنه أنه إن ظن أن الميت يتصرف في الأمور دون الله تعالى واعتقاده ذلك كفر، اللهم إلا إن قال يا الله إني نذرت لك إن شفيت مريضي أو رددت غائبي أو قضيت حاجتي أن أطعم الفقراء الذين بباب السيدة نفيسة أو الإمام الشافعي أو الإمام الليث أو اشترى حصرا لمساجدهم أو زيتا لوقودها أو دراهم لمن يقوم بشعائرها إلى غير ذلك مما يكون فيه نفع للفقراء والنذر لله عز وجل وذكر الشيخ إنما هو محل لصرف النذر لمستحقيه القاطنين برباطه أو مسجده فيجوز بهذا الاعتبار، ولا يجوز أن يصرف ذلك لغني ولا لشريف منصب أو ذي نسب أو علم، ما لم يكن فقيرا ولم يثبت في الشرع جواز الصرف للأغنياء للإجماع على حرمة النذر للمخلوق، ولا ينعقد ولا تشتغل الذمة به ولأنه حرام بل سحت ولا يجوز لخادم الشيخ أخذه إلا أن يكون فقيرا أو له عيال فقراء عاجزون فيأخذونه على سبيل الصدقة المبتدأة، وأخذه أيضا مكروه ما لم يقصد الناذر التقرب إلى الله تعالى وصرفه إلى الفقراء، ويقطع النظر عن نذر الشيخ بحر ملخصا عن شرح العلامة قاسم (قوله ما لم يقصدوا إلخ) أي بأن تكون صيغة النذر لله تعالى للتقرب إليه ويكون ذكر الشيخ مرادا به فقراؤه كما مر، ولا يخفى أن له الصرف إلى غيرهم كما مر سابقا ولا بد أن يكون المنذور مما يصح به النذر كالصدقة بالدراهم ونحوها، أما لو نذر زيتا لإيقاد قنديل فوق ضريح الشيخ أو في المنارة كما يفعل النساء من نذر الزيت لسيدي عبد القادر ويوقد في المنارة جهة المشرق فهو باطل، وأقبح منه النذر بقراءة المولد في المنابر ومع اشتماله على الغناء واللعب وإيهاب ثواب ذلك إلى حضرة المصطفى - صلى الله عليه وسلم."

(کتاب الصوم،ج2،ص440،ط؛سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144401101885

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں