بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

نذر کے لیے کیا شرائط ہیں؟


سوال

نذر کے لیے کیا شرائط ہیں؟

جواب

 نذر  لازم  اور منعقد  ہونے کی  مندرجہ ذیل شرائط ہیں:                                              

1:جس کام کی نذر مانی جائے وہ  عبادت ہو، گناہ کا کام نہ ہو۔

2:  عبادت ایسی ہو  کہ اس طرح کی عبادت کبھی فرض یا واجب ہوتی ہو، جیسے : نماز ،روزہ ،حج ،قربانی وغیرہ ، پس ایسی عبادت کہ جس کی جنس کبھی فرض یا واجب نہیں ہوتی ہو اس کی نذر بھی صحیح نہیں ، جیسے مریض کی عیادت کرنا، یہ عمل اگرچہ عبادت توہے لیکن فرض یاواجب نہیں،اس لئے اس طرح کے عمل کی نذر ماننا درست نہیں۔

3:وہ عبادت  عبادتِ مقصودہ ہو،  لہذا اگر کسی نے ہر نماز کے لئے وضو کرنے کی نذر مانی ، تو یہ نذر منغقد نہیں ہوگی، اور اس پر ہر نماز کے لئے وضو کرنا لازم نہیں ہوگا؛ کیونکہ وضو عبادت مقصودہ نہیں، بلکہ وضو دیگر عبادات جن کے لئے وضو شرط ہے ،کے لئے وسیلہ ہے۔

"واعلم بأنهم صرحوا بأن شرط لزوم النذر ثلاثة كون المنذور ليس بمعصية وكونه من جنسه واجب وكون الواجب مقصودا لنفسه قالوا فخرج بالأول النذر بالمعصية والثاني نحو عيادة المريض والثالث ما كان مقصودا لغيره حتى لو نذر الوضوء لكل صلاة لم يلزم وكذا لو نذر سجدة التلاوة." 

(البحر الرائق: كتاب الصوم، فصل ما يوجبه العبد على نفسه (2/ 316)، ط. دار الكتاب الإسلامي، الطبعة الثانية )

 واضح رہے یہ شرائط اس صورت میں ہے کہ نذر اللہ رب العزت کے نام کی مانی جائے ، پس  اگرغیر اللہ کے نام کی نذر مانی گئی تو وہ بلا کسی شرط کے  باطل ہوگا۔

الدر المختار مع رد المحتار میں ہے:

"واعلم أن النذر الذي يقع للأموات من أكثر العوام وما يؤخذ من الدراهم والشمع والزيت ونحوها إلى ضرائح الأولياء الكرام تقربا إليهم فهو بالإجماع باطل وحرام ما لم يقصدوا صرفها لفقراء الأنام وقد ابتلي الناس بذلك".

وفي رد المحتار: 

"(قوله باطل وحرام) لوجوه: منها أنه نذر لمخلوق والنذر للمخلوق لا يجوز لأنه عبادة والعبادة لا تكون لمخلوق".

(الدر المختار مع رد المحتار: كتاب الصوم، مطلب في النذر الذي يقع للأموات من أكثر العوام من شمع أو زيت أو نحوه (2/ 439)، ط. سعيد)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144406101439

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں