بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

نزلہ زکام کی شدت کی وجہ سے بہتے ناک کو نماز کے دوران رُومال/کپڑے سے صاف کرنے کا حکم


سوال

زید کو بہت نزلہ ہے ناک سے پانی بہتا رہتا ہے، وہ جب با جماعت نماز پڑھنے کے لئے مسجد جاتا ہے ، تو نماز پڑھنے کے دوران اپنے ہاتھ میں رومال رکھ لیتا ہے، تاکہ بار بار بہتے ہوئے نا ک کے پانی کو صاف کر سکے، اس کا کیا حکم ہے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں اگر واقعۃً نزلہ و زکام کی شدت سےبہتے ناک کو صاف کرنے کے لیے زیددورانِ نماز ایک ہاتھ میں رومال رکھ کر نماز ادا کرتا ہےتو شرعاً اس کی اجازت ہے،اور نماز ادا ہوجائے گی،بشرط یہ کہ دورانِ نماز ایک ہاتھ سے بہتے ناک کو اس طرح صاف کرے کہ عملِ کثیر کی نوبت  پیش نہ آئے۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"‌ظهر ‌من ‌أنفه ‌ذنين  في الصلاة فمسحه أولى من أن يقطر منه على الأرض. كذا في القنية."

(كتاب الصلاة،الباب السابع، الفصل الثاني فيما يكره في الصلاة وما لا يكره، ج:1، ص:105، ط:دارالفكر)

فتاوی شامی میں ہے:

"(و) كره (كفه) أي رفعه ولو لتراب كمشمر كم أو ذيل (وعبثه به) أي بثوبه (وبجسده) للنهي إلا لحاجة.

وفي الرد:(قوله وعبثه) هو فعل لغرض غير صحيح قال في النهاية: وحاصله أن كل عمل هو مفيد للمصلي فلا بأس به. أصله ما روي «أن النبي - صلى الله عليه وسلم - عرق في صلاته فسلت العرق عن جبينه» أي مسحه لأنه كان يؤذيه فكان مفيدا. وفي زمن الصيف كان إذا قام من السجود نفض ثوبه يمنة أو يسرة لأنه كان مفيدا كي لا تبقى صورة. فأما ما ليس بمفيد فهو العبث اهـ وقوله كي لا تبقى صورة يعني حكاية صورة الألية كما في الحواشي السعدية، فليس نفضه للتراب. فلا يرد ما في البحر عن الحلية من أنه إذا كان يكره رفع الثوب كي لا يتترب، لا يكون نفضه من التراب عملا مفيدا (قوله للنهي) وهو ما أخرجه القضاعي عنه - صلى الله عليه وسلم - «إن الله كره لكم ثلاثا: العبث في الصلاة. والرفث في الصيام، والضحك في المقابر» " وهي كراهة تحريم كما في البحر (قوله إلا لحاجة) كحك بدنه لشيء أكله وأضره وسلت عرق يؤلمه ويشغل قلبه. وهذا لو بدون عمل كثير."

(كتاب الصلاة،باب ما يفسد الصلاة، ج:1، ص:640، ط:سعيد)

حاشیۃ الطحطاوی میں ہے:

"ويكره ‌أن ‌يرمي ‌بزاقه ‌إلا أن يضطر فيأخذه في ثوبه."

(كتاب الصلاة،باب في ما لايفسد الصلاة، ص:348، ط:دارالكتب العلمية)

"آپ کے مسائل اور ان کا حل " میں ہے:

نماز میں رُومال سے نزلہ صاف کرنا

سوال: مولانا صاحب ! آپ سے نماز کے متعلق ایک مسئلہ معلوم کرنا تھا،میں نے ایک شخص کو نماز باجماعت پڑھتے ہوئے دیکھا کہ وہ ہاتھ میں رکھے ہوئے رُومال سے نزلہ صاف کررہے تھے، میں نے جب ان سے پوچھا کہ یہ کرنا دُرست ہے؟ تو وہ کہتے کہ دُرست ہے،اور وہ کہتے ہیں کہ فلاں مولانا صاحب نے اس کو عذر کہا ہے، جبکہ میں نے اپنی جامع مسجد کے اِمام صاحب سے یہ مسئلہ پوچھا تو وہ کہتے ہیں کہ قیام میں کوئی بھی چیز ہاتھ میں نہیں لینی چاہیے، اگر نزلہ گررہاہوتو آپ ہاتھ سے صاف کرسکتے ہیں۔مولانا صاحب! آپ اس مسئلہ میں میری مدد فرمائیں۔

جواب: نزلے کی شدت ہوتو کوئی حرج نہیں ۔

(کتاب الصلاۃ، جلد سوم، ص:569، ط:مکتبہ لدھیانوی)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144409100320

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں