بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1445ھ 30 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

شکرانہ کی رقم سید والدہ اوربھائی بہن کو دینا


سوال

 میں اللہ سے دعا کرتا تھا کہ یا اللہ،میری یہ دعا قبول کر لیجیے، میں بطورِ شکرانہ آپ کی خوشنودی کے کاموں میں ایک مخصوص رقم خرچ کروں گا، الحمدللہ، میرے اللہ نے میری دعا قبول کی،اب میں کیا یہ رقم اپنی والدہ اور بہن بھائیوں میں خرچ کر سکتا ہوں ،جب کہ والدہ، بھائی اور بہن"سید " ہیں، یاپھر ان خونی رشتے داروں کے علاوہ دوسرے لوگوں پر خرچ کرنا ہو گا؟اور نذر کی رقم کو خرچ کر تے وقت ثواب، اللہ کے  رسول صلی اللہ علیہ وسلم، والدین اور بہن بھائیوں کو بخشنے کی نیت کرسکتا ہوں؟ برائے مہربانی راہ نمائی فرمائیں۔

جواب

صورتِ  مسئولہ  میں جب  آپ نے یہ کہا کہ   یا اللہ،میری یہ دعا قبول کر لیجیے، میں بطورِ شکرانہ آپ کی خوشنودی کے کاموں میں ایک مخصوص رقم خرچ کروں گا" تو شرعی اعتبار سے یہ نذر نہیں ہے، کیوں نذر منعقد ہونے کے لیے اس کے مخصوص صیغے کا ہونا ضروری ہے، محض "بطورِ شکرانہ " کے الفاظ کہنے سے نذر منعقد نہیں ہوتی،  لہٰذا  مذکورہ  کام ہوجانے کے بعد  مخصوص رقم آپ پر ادا کرنا لازم نہیں ہے، تاہم اگر شکرانہ کے طور پر ادا کرنا چاہیں تو کر سکتے ہیں ، اور اپنی والدہ اور بہن بھائیوں کو بھی دے سکتے ہیں، کیوں کہ سید کو صرف زکاۃ اور صدقاتِ واجبہ کی رقم نہیں دی جا سکتی، جب کہ مذکورہ رقم ہدیہ کے حکم میں ہے، نیز رقم ہدیہ کرتے وقت اس کا ثواب، اللہ کے  رسول صلی اللہ علیہ وسلم، والدین اور بہن بھائیوں کو بخشنے کی نیت بھی کر سکتے ہیں۔

بدائع الصنائع میں ہے:

"فركن النذر هو الصيغة الدالة عليه وهو قوله: " لله عز شأنه علي كذا، أو علي كذا، أو هذا هدي، أو صدقة، أو مالي صدقة، أو ما أملك صدقة، ونحو ذلك."

(كتاب النذر، ج:5، ص:81، ط:دار الكتب العلمية)

رد المحتار میں ہے:

"و في البحر: من صام أو صلّی أو تصدق و جعل ثوابه لغیرهم من الأموات و الأحیاء جاز، و یصل ثوابها إلیهم عند أهل السنة و الجماعة، كذا في البدائع ... و بهذا علم أنّه لافرق  بین أن یکون المجعول له میتًا أو حیًّا ... و أنّه لافرق بین الفرض و النوافل اهـ ."

(کتاب الصلاة، باب صلاة الجنازة،  243/2 ط: سعید)

شعب الإيمان للبيهقي " میں ہے:

"عن عبد الله بن عمر قال: قال رسول الله ﷺ من حج عن والدیه بعد وفاتهما کتب له عتقاً من النار، وکان للمحجوج عنهما أجر حجة تامة من غیر أن ینقص من أجور هما شیئاً."

( شعب الإیمان ، ٦/ ٢٠٤، رقم: ٧٩١٢، ط: دارالکتب العلمیة)

ترجمہ:" حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان نقل کرتے ہیں کہ:  جو شخص اپنے والدین کی وفات کے بعد ان کی طرف سے حج کرتا ہے، تو اس کے لیے جہنم سے خلاصی لکھ دی جاتی ہے،  اور جن دونوں (والدین) کی طرف سے حج کیا گیا ہے انہیں کامل حج کا ثواب ملتاہے، نہ حج کرنے والے کی اجر میں کوئی کمی کی جاتی ہے اور نہ ہی جن کی طرف سے حج کیا گیا ہے ان کے اجر میں کوئی کمی کی جاتی ہے۔"

وفيه أيضاً:

"عن عمرو بن شعیب عن أبیه عن جده قال: قال رسول الله ﷺ لأبي: إذا أردت أن تتصدق صدقةً فاجعلها عن أبويك؛ فإنه یلحقهما أجرها ولاینتقص من أجرك شیئاً."

( شعب الإیمان ، ٦/ ٢٠٤، رقم: ٧٩١١، ط: دارالکتب العلمیة)

ترجمہ:"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے : جب تم صدقہ کرنا چاہو ، تو اپنے والدین کی طرف سے کرو کیوں کہ اس کا ثواب ان کو ملتا ہے اور تمہارے اجر میں بھی کمی نہیں کی جاتی۔"

مجمع الأنہر فی شرح ملتقی الابحر میں ہے:

"(وللإنسان أن یجعل ثواب عمله لغیره في جمیع العبادات) فرضاً أو نفلاً."

(کتاب الحج،باب الھدی،ج:1،ص:310،ط:داراحیاء التراث)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144408101146

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں