بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

6 ذو القعدة 1445ھ 15 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

نذر صحیح ہونے کی شرائط


سوال

اگرکسی نے کہا کہ اگر میرے فلاں کام کے روپے نکل آئے تو میں اپنے والدین کے ایصال ثواب کےلئے مسجد میں خرچ کروں گا تو یہ نذر ہے اور یہ روپے مسجد کے علاوہ اپنی ضرورت پر خرچ کرسکتا ہے یا نہیں؟

جواب

واضح رہے کہ نذر کے صحیح ہونے نہ ہونے کے بارے میں زیادہ تر دو شرائط اہم ہیں، اور ان دونوں شرطوں کو معیار بنایا جاتا ہے، اور وہ دو شرائط یہ ہیں:

(الف) منذور بہ (جس عمل کی نذر مانی جائے) قربت اور عبادتِ مقصودہ ہو، عبادتِ غیرمقصودہ نہ ہو جیسے نماز، روزہ،حج، صدقہ اور اعتکاف وغیرہ۔

(ب) منذور بہ کی جنس سے کوئی فرد فرض یا کم ازکم کوئی فرد واجب ہو، فرض کی مثال:جیسے نماز، روزہ اور حج کرنے کی نذر ماننا، مثلاً کسی نے پندرہ دن روزہ رکھنے کی نذر مانی تو یہ نذر درست ہے، کیونکہ اس کی جنس سے رمضان کا روزہ فرض ہے۔ اور واجب کی مثال: جیسے جانور ذبح کرکے اس کا گوشت تقسیم کرنے کی نذر ماننا، یا نفلی قربانی کرنے کی نذر ماننا، کیونکہ اس کی جنس سے قربانی واجب ہے۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں ’’اگر میرے فلاں کام کے روپے نکل آئے تو میں اپنے والدین کے ایصال ثواب کےلئے مسجد میں خرچ کروں گا‘‘کہنا نذر نہیں ہےکیونکہ ایصالِ ثواب کی جنس سے کوئی واجب عمل موجود نہیں ہے اور یہ عبادتِ مقصودہ بھی نہیں ہے، اس لیے یہ رقم اپنی ضروریات میں بھی خرچ کی جاسکتی ہے، البتہ مسجد میں رقم خرچ کرکےوالدین کو ثواب پہنچانے سے انہیں اس کا ثواب پہنچے گااور اس کا انہیں فائدہ بھی  ہوگا اور وعدہ کے مطابق عمل کرنا بھی بہتر ہوگا۔

البحر الرائق شرح كنز الدقائق میں ہے:

"واعلم بأنهم صرحوا بأن شرط لزوم النذر ثلاثة كون المنذور ليس بمعصية وكونه من جنسه واجب وكون الواجب مقصودا لنفسه قالوا فخرج بالأول النذر بالمعصية والثاني نحو عيادة المريض والثالث ما كان مقصودا لغيره حتى لو نذر الوضوء لكل صلاة لم يلزم وكذا لو نذر سجدة التلاوة."

(كتاب الصوم، باب مايفسد الصوم ومالايفسده، ط:2/ 316، ط: رشيدية)

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع  میں ہے:

"(ومنها) أن يكون ‌قربة ‌مقصودة، فلا يصح النذر بعيادة المرضى وتشييع الجنائز والوضوء والاغتسال ودخول المسجد ومس المصحف والأذان وبناء الرباطات والمساجد وغير ذلك وإن كانت قربا؛ لأنها ليست بقرب مقصودة ويصح النذر بالصلاة والصوم والحج والعمرة والإحرام بهما والعتق والبدنة والهدي والاعتكاف ونحو ذلك؛ لأنها قرب مقصودة."

(كتاب النذر، فصل:وأما شرائط الركن فأنواع، 5/ 82، ط: سعيد)

الفقه على المذاهب الأربعة میں ہے:

"ويشترط لصحة النذر سبعة شروط: الأول أن يكون من جنس المنذور فرض أو واجب اصطلاحي على الأصح كالصوم والصلاة والصدقة."

(كتاب اليمين، مباحث النذر، 2/ 131، ط:دارالكتب العلمية بيروت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144401101456

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں