بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

نذر منعقد ہونے کی شرائط


سوال

نذر منعقد ہونے کی کیا شرائط ہیں؟

جواب

واضح رہے کہ نذر (منت) کے منعقد اور لازم ہونے کے لیے مندرجہ ذیل  شرائط کا پایا جانا ضروری ہے:

1- نذر  کے الفاظ زبان سے ادا کیے جائیں، صرف دل  میں ارادہ کرنے سے نذر  منعقد نہیں ہوتی۔

2- نذر  کے الفاظ میں التزام (یعنی کسی  غیر لازم چیز کو اپنے اوپر لازم کرنے) کا معنیٰ پایا جائے۔ 

3- نذر  کے الفاظ "ان شاء اللہ" سے خالی ہوں، لہٰذا اگر کسی نے نذر کے الفاظ زبان سے  ادا کرتے ہوئے ساتھ  میں "ان شاء اللہ" بھی کہہ دیا تو نذر منعقد نہیں ہوگی۔

4- نذر اللہ رب العزت کے نام کی مانی جائے،  پس غیر اللہ کے نام کی نذر درست نہیں۔

5- نذر صرف عبادت کے کام کی ہو، پس جو کام عبادت نہیں ہیں اُن کی منت ماننا درست نہیں ہے۔

6- عبادت ایسی ہو  کہ اس طرح کی عبادت کبھی فرض یا واجب ہوتی ہو، جیسے : نماز ،روزہ ،حج ،قربانی وغیرہ ، پس ایسی عبادت کہ جس کی جنس میں کبھی فرض یا واجب نہیں ہوتی ہو اس کی منت ماننا  بھی صحیح نہیں ہے۔

7- نیز وہ عبادت فی الحال بندے پر فرض یا واجب نہ ہو، لہٰذا یہ نذر ماننا کہ میرا فلاں کام ہوگیا تو آج ظہر کی نماز پڑھوں گا، یا روزانہ ظہر کی نماز پڑھوں گا، درست نہیں ہوگی۔

بدائع الصنائع میں ہے:

"فركن النذر هو الصيغة الدالة عليه وهو قوله: " لله عز شأنه علي كذا، أو علي كذا، أو هذا هدي، أو صدقة، أو مالي صدقة، أو ما أملك صدقة، ونحو ذلك."

(كتاب النذر، بيان ركن النذر وشرائطه، ٥/ ٨١، ط: دار الكتب العلمية)

العرف الشذی میں ہے:

"ومنها أنه عمل اللسان لا القلب فقط، وصيغته صيغة الشرط والجزاء."

(أبواب النذور والأيمان، ١/ ٢٧٩، ط: سعيد)

فتاویٰ بزازیہ میں ہے:

"إن عوفيت صمت كذا، لم يجب مالم يقل لله علي، وفي الاستحسان  يجب، وإن لم يكن تعليقا لايجب قياسا واستحسانا، كما إذا قال أنا أحج فلا شيء، ولو قال إن فعلت كذا فأنا أحج ففعل يجب عليه الحج."

(الفتاوى  البزازية على حامش الهندية، كتاب الأيمان، الفصل الثالث في النذر، ٤/ ٢٧٢، ط: مكتبة ماجدية)

الفقہ علی مذاہب الاربعہ میں ہے:

"ولا يشترط للنذر صيغة خاصة، ‌فيلزم ‌بكل ‌لفظ دال على الالتزام ولو لم يذكر فيه لفظ النذر."

(كتاب اليمين، مباحث النذر، أقسام النذر، ٢/ ١٣١، ط: دارالكتب العلمية)

مبسوطِ سرخسی میں ہے:

"وإن وصل ‌الاستثناء ‌بنذره لم يلزمه شيء؛ لأن الاستثناء يخرج الكلام من أن يكون عزيمة."

(كتاب المناسك، باب النذر، ٤/ ١٣٣، ط: دار المعرفة)

فتاویٰ عالمگیریہ میں ہے:

"الأصل أن النذر لا يصح إلا بشروط (أحدها) أن يكون الواجب من جنسه شرعا فلذلك لم يصح النذر بعيادة المريض. (والثاني) أن يكون مقصودا لا وسيلة فلم يصح النذر بالوضوء وسجدة التلاوة. (والثالث) أن لا يكون واجبا في الحال، وفي ثاني الحال فلم يصح بصلاة الظهر وغيرها من المفروضات هكذا في النهاية (والرابع) أن لا يكون المنذور معصية باعتبار نفسه هكذا في البحر الرائق."

(كتاب الصوم، الباب السادس في النذر، ١/ ٢٠٨، ط:  دار الفكر)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144506102444

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں