بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

22 شوال 1445ھ 01 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

نذر میں متعین کردہ فقراء کے علاوہ دوسروں پر صرف کرنا


سوال

زید نے منت مانی کہ اگر میرا فلاں کام ہوجائے تو میں اللہ کے نام بکرا ذبح کرکے مدرسے کے بچوں کو کھلاؤں گا، لیکن فی الحال مدارس میں بچے نہ ہونے کی وجہ سے کیا فقرا و مساکین یا عام لوگوں کھلا سکتے ہیں؟

جواب

صورتِ  مسئولہ میں زید نے جس کام کے ہونے پر نذرکو معلق کیاتھااگر وہ کام ہوگیا تو اب اس نذر کا مکمل کرنا لازم ہے ، فقہاء نے لکھا ہے کہ نذر /منت میں فقراء متعین کرنے سے متعین نہیں ہوتے اس طور پر کہ ان کے علاوہ دوسرے فقراء پر خرچ کرنا جائز نہ ہو؛ لہذا زید نے اگر مدرسہ کے بچوں کو بکراذبح کرکے کھلانے کی منت مانی تھی ، اور فی الوقت مدارس میں طلبہ موجود نہیں تو زید اپنی منت پورا کرنے کے لیے دیگر فقراء ومساکین کوبھی کھلاسکتا ہے،  اس سے نذر پوری ہوجائے گی۔یہ یاد رہے کہ منت کاکھانا خود منت ماننے والا اس کے گھر والے اور مال دار لوگ نہیں کھاسکتے،  بلکہ غریب مستحق لوگوں کو دینا ضروری ہے۔

البحر الرائق شرح كنز الدقائق - (8 / 504)

" ولو قال لله علي أن أتصدق على مساكين مكة فله أن يتصدق على غيرهم وعن أبي يوسف رواية أخرى فيمن أوصى أن يتصدق عنه على فقراء مكة فتصدق على فقراء غيرها أنه يجوز."

الدر المختار شرح تنوير الأبصار في فقه مذهب الإمام أبي حنيفة - (3 / 740):

" ( ولو قال: لله علي أن أذبح جزورا وأتصدق بلحمه فذبح مكانه سبع شياه جاز ) كذا في مجموع النوازل و وجهه لايخفى، و في القنية: إن ذهبت هذه العلة فعلي كذا فذهبت ثم عادت لايلزمه شيء، ( نذر لفقراء مكة جاز الصرف لفقراء غيرها ) لما تقرر في كتاب الصوم أن النذر غير المعلق لايختص بشيء."

درر الحكام شرح غرر الأحكام - (5 / 190):

"(نذر لفقراء مكة جاز الصرف إلى فقراء غيرها)؛ لأن المقصود التقرب إلى الله تعالى بدفع حاجة الفقير ولا مدخل فيه لخصوص المكان قال الفقيه أبو الليث : وهو قول علمائنا الثلاثة."

مجمع الأنهر في شرح ملتقى الأبحر ـ مشكول - (4 / 37):

"نذر لفقراء مكة جاز الصرف إلى فقراء غيرها."

الدر المختار شرح تنوير الأبصار في فقه مذهب الإمام أبي حنيفة - (2 / 436):

"(و النذر) من اعتكاف أو حج أو صلاة أو صيام أو غيرها ( غير المعلق ) ولو معينًا (لايختص بزمان ومكان ودرهم وفقير ) فلو نذر التصدق يوم الجمعة بمكة بهذا الدرهم على فلان فخالف جاز."

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144111200902

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں