بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

نذر ماننے کے بعد واپس لینا


سوال

میں نے نذر مانی کہ فلاں کام ہو گیا تو میں اعمال کروں گا، پھر ایک مولانا سے سنا کہ نبی صلی الله علیه وسلم نے نذر ماننے کو پسند نہیں فرمایا، اگرچہ نذر ماننا جائز ہے۔ اب  میرا سوال یہ  ہے کہ نذر ماننے کے بعد  واپس  لی  جا سکتی  ہے،  جب  کہ ابھی کام نہیں  ہوا؟ اور  آیا مجھے نذر  واپس لینی بھی  چاہیے یا نہیں؟

جواب

واضح رہے کہ  نذر کے  لازم ہونے کے لیے ضروری ہے کہ   ایسی عبادت کی نذر مانی جائے   کہ اس طرح کی عبادت کبھی فرض یا واجب ہوتی ہو، جیسے: نماز، روزہ، حج، قربانی وغیرہ، پس ایسی عبادت کہ جس کی جنس کبھی فرض یا واجب نہیں ہوتی ہو اس کی منت بھی صحیح نہیں۔ اسی طرح جو عبادت پہلے سے فرض ہے (مثلاً پنج وقتہ نماز، صاحبِ نصاب کے لیے زکاۃ، رمضان کا روزہ اور صاحبِ استطاعت کے لیے حج)، اس کی نذر ماننا بھی صحیح نہیں، کیوں کہ یہ پہلے سے ہی فرض ہیں ،اور نذر  کا حکم یہ ہے کہ جب نذر  مان لی جائے تو اب اس کو واپس نہیں لیا جاسکتا، جس کام کے ہونے پر نذر  مانی جائے اور وہ کام ہو جائے تو اس منت کا پورا کرنا واجب ہو جاتا ہے۔

لہذاصورتِ  مسئولہ میں اگر سائل نے کسی ایسی عبادت کی نذر مان لی تھی  جو کبھی فرض یا واجب ہوتی ہو تو اب مذکورہ کام پورا ہونے پر  نذر کا پورا کرنا لازم ہوگا ،یہ نذر واپس نہیں لی جاسکتی ۔ اور اگر ان ہی الفاظ میں نذر مانی تھی کہ " فلاں کام ہو گیا تو میں اعمال کروں گا"، اور "اعمال" سے مراد تبلیغ کے معروف اعمال ہیں یا ایسے اعمال جن  کی جنس میں سے فرض یا واجب عمل نہیں ہےتو یہ نذر منعقد ہی نہیں ہوئی۔ 

بدائع الصنائع میں ہے:

"(ومنها) أن يكون قربةً فلايصح النذر بما ليس بقربة رأسا كالنذر بالمعاصي بأن يقول : لله عز شأنه علي أن أشرب الخمر أو أقتل فلاناً أو أضربه أو أشتمه ونحو ذلك؛ لقوله عليه الصلاة والسلام: {لا نذر في معصية الله تعالى}، وقوله : عليه الصلاة والسلام: {من نذر أن يعصي الله تعالى فلايعصه}، ولأن حكم النذر وجوب المنذور به، ووجوب فعل المعصية محال، وكذا النذر بالمباحات من الأكل والشرب والجماع ونحو ذلك؛ لعدم وصف القربة لاستوائهما فعلاً وتركاً."

(كتاب النذر، بيان ركن النذر وشرائطه، ج: 5، صفحہ: 82، ط: دار الكتب العلمية)

وفي الدر المختار وحاشية ابن عابدين :

"(ومن نذر نذراً مطلقاً أو معلقاً بشرط وكان من جنسه واجب) أي فرض كما سيصرح به تبعاً للبحر والدرر (وهو عبادة مقصودة) خرج الوضوء وتكفين الميت (ووجد الشرط) المعلق به (لزم الناذر)".

(رد المحتار3/ 735ط:سعيد)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144208200964

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں