بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

نذر ماننے والے کے بچوں کا نذر کی بکری میں سے کھانا


سوال

ایک شخص نے نذر کی بکری مدرسے میں بھیج دی ہے اور اس شخص کے بچے بھی اسی مدرسے میں پڑھتے ہیں، کیا اس شخص کے بچوں کے لیے اس بکری کا گوشت کھانا جائز ہے ؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں نذر ماننے والے شخص کے بچوں کے لیے نذر  کی بکری میں سے کھانا جائز نہیں ہے، اگر چہ بچے غریب اور مستحق ہی کیوں نہ ہوں، کیونکہ نذر کا مصرف وہی لوگ ہیں جو زکوۃ کا مصرف ہیں، تو جیسے زکوۃ اپنے اصول یعنی باپ، دادا، پردادا اور فروع یعنی اولاد کو دینا جائز نہیں ہے، اسی طرح نذر کی ہوئی چیزبھی نذر کرنے والے کے اصول وفروع کے لیے  کھانا جائز نہیں ہے۔

درالمختار میں ہے:

"باب المصرف أي مصرف الزكاة والعشر".

"(قوله: أي مصرف الزكاة والعشر) ......... وهو مصرف أيضا لصدقة الفطر والكفارة والنذر وغير ذلك من الصدقات الواجبة كما في القهستاني".

(کتاب الزکوۃ، باب مصرف الزکوۃ والعشر، ج:2، ص:339، سعید)

وفیہ ایضاً:

"(ولا) إلى (من بينهما ولاد)
(قوله: وإلى من بينهما ولاد) أي بينه وبين المدفوع إليه؛ لأن منافع الأملاك بينهم متصلة فلا يتحقق التمليك على الكمال، هداية۔ والولاد بالكسر مصدر ولدت المرأة ولادةً وولاداً مغرب، أي أصله وإن علا كأبويه وأجداده وجداته من قبلهما، وفرعه وإن سفل بفتح الفاء من باب طلب والضم خطأ؛ لأنه من السفالة وهي الخساسة مغرب، كأولاد الأولاد، وشمل الولاد بالنكاح والسفاح، فلا يدفع إلى ولده من الزنا ولا من نفاه كما سيأتي، وكذا كل صدقة واجبة كالفطرة والنذر والكفارات، وأما التطوع فيجوز بل هو أولى، كما في البدائع، وكذا يجوز خمس المعادن؛ لأن له حبسه لنفسه إذا لم تغنه الأربعة الأخماس، كما في البحر عن الإسبيجابي، وقيد بالولاد؛ لجوازه لبقية الأقارب كالإخوة والأعمام والأخوال الفقراء بل هم أولى؛ لأنه صلة وصدقة".

(کتاب الزکوۃ، باب مصرف الزکوۃ والعشر، ج:2، ص:349، سعید)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144406100537

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں