بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

نذر ماننے والے کا نذر کا گوشت کھانا


سوال

نذر  کا گوشت کھانا  نذر ماننے والے کے لیے کیا حکم رکھتا  ہے؟

جواب

 نذر مانی ہوئی چیز کوان لوگوں کے لیے کھاناجائزہےجوزکوۃ اورصدقات واجبہ کےمستحق ہیں،خودنذرماننےوالےکےلیےاورصاحب نصاب شخص کےلیےاس کاکھاناجائزنہیں ہے۔

فتاوی شامی میں ہے :

"باب ‌المصرف (قوله: أي ‌مصرف الزكاة والعشر) يشير إلى وجه مناسبته هنا، والمراد بالعشر ما ينسب إليه كما مر فيشمل العشر ونصفه المأخوذين من أرض المسلم وربعه المأخوذ منه إذا مر على العاشر أفاده ح. وهو ‌مصرف أيضا لصدقة الفطر والكفارة والنذر وغير ذلك من الصدقات الواجبة كما في القهستاني ."

(كتاب الزكاة،باب مصرف الزكاة والعشر ج : 2 ص : 339 ط : سعيد)

وفیہ ایضاً:

"(ويأكل من لحم الأضحية ويأكل غنيا ويدخر.

(قوله ويأكل من لحم الأضحية إلخ) هذا في الأضحية الواجبة والسنة سواء إذا لم تكن واجبة بالنذر، وإن وجبت به فلا يأكل منها شيئا ولا يطعم غنيا سواء كان الناذر غنيا أو فقيرا لأن سبيلها التصدق وليس للمتصدق ذلك، ولو أكل فعليه قيمة ما أكل زيلعي."

(كتاب الأضحية،فروع ج : 6 ص : 327 ط : سعيد)

"امداد الفتاوی" میں ہے:

"سوال: ہمارے یہاں اس طرح پر نذر کرتے ہیں :"اگر فلاں مقصود میرا حاصل ہو تو ایک گائے اللہ تعالیٰ کے نام پر ذبح کرکے محلہ والوں کو کھلاؤں گا " یا یوں کہے کہ "للہ ذبح کروں گا"،  مگر اہل محلہ کو کھلانا منظور ہوتا ہے، حالاں کہ محلہ میں نصاب والا اور فقیر دونوں ہیں، بلکہ بہ نسبت فقیر کے پیسے والے کو کھلانے کا زیادہ خیال رہتا ہے۔ جنابِ من اس صورت میں ایفاءِ نذر واجب ہوگا یا نہیں؟ اور دونوں فرقوں کو کھلانا اس کا درست ہوگا یا نہیں ؟

الجواب : فی الدرالمختار:نذر ‌التصدق على الأغنياء لم يصح ما لم ينو أبناء السبيل وفيه :(ولو قال إن برئت من مرضي هذا ذبحت شاة أو علي شاة أذبحها فبرئ لا يلزمه شيء لأن الذبح ليس من جنسه فرض بل واجب كالأضحية (فلا يصح) (إلا إذا زاد وأتصدق بلحمها فيلزمه) لأن الصدقة من جنسها فرض وهي الزكاةالخ...

اس روایت سے معلوم ہوا کہ بقدرِ اغنیاء کے نذر منعقد نہیں ہوئی اور بقدرِ فقراء منعقد ہوگئی اور فقراء کو کھلانا ضروری ہوگا اور اغنیاء نے اگر کھایا تو دیکھنا چاہیے کہ اُس نے بقدرِ حصہ فقراء پکوا یا ہے یا زیادہ ؟ پہلی صورت میں اغنیاء کو کھانا درست نہیں ،دوسری صورت میں درست ہے۔"

(کتاب النذور،  ج :2ص : 548 ط: مکتبہ دار العلوم)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144408101279

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں