بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

نذر کے پیسے مسجد میں دینا


سوال

میں نے نیت کی تھی کہ میرا فلاں کام ہو جائے تو چالیس ہزار کا راشن غرباء میں تقسیم کروں گا،  اب اس چالیس میں سے کچھ رقم مسجد کی تعمیر میں دینا چاہتا ہوں،  کیا یہ درست ہے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں  فقط دل میں  نذر کی نیت کرنے سے اور یہ سوچنے سے کہ" میرا فلاں کام ہو جائے تو چالیس ہزار کا راشن غرباء میں تقسیم کروں گا"سے نذر منعقد نہیں ہوئی بلکہ نیت کے ساتھ ساتھ الفاظِ نذر  کااستعمال کرنا ضروری ہے،لہذا صرف نیت کرنے سے آپ پر کوئی چیز لازم نہیں ہوئی ۔

البتہ اگر آپ نے  نیت کے ساتھ ساتھ مذکورہ الفاظ بھی اداکیے تھے تو اس صورت میں   مذکورہ کام ہوجانے کے بعد آپ پر چالیس ہزار روپے مستحقِ زکوٰۃفقراء کودینا ضروری ہے، اس میں سے مسجد میں خرچ کرنا شرعا درست نہیں ۔

 فتاوی شامی میں ہے:

"(أي مصرف الزكاة والعشر ) وهو مصرف أيضا لصدقة الفطر والكفارة والنذر وغير ذلك من الصدقات الواجبة."

(کتاب الزکوۃ ، باب المصرف ج: 2 ص: 339 ط: سعيد)

البحرالرائق میں ہے:

"وركنها اللفظ المستعمل فيها، وشرطها العقل والبلوغ".

(كتاب الأيمان ج: 4 ص: 300 ط: دار الکتاب الاسلامی)

بدائع الصنائع میں ہے :

"( فصل ): وأما ركن اليمين بالله تعالى فهو اللفظ الذي يستعمل في اليمين بالله تعالى".

( کتاب الایمان  والنذور ج:6 ص:210 ط: رشیدیة)

البحرالرائق میں ہے :

"( قوله: ومن نذر نذرًا مطلقا، أو معلقًا بشرط ووجد وفى به) أي وفى بالمنذور؛ لقوله عليه السلام: {من نذر وسمى فعليه الوفاء بما سمى} وهو بإطلاقه يشمل المنجز والمعلق؛ ولأن المعلق بالشرط كالمنجز عنده أطلقه، فشمل ما إذا علقه بشرط يريد كونه أو لا، وعن أبي حنيفة أنه رجع عنه، فقال: إن فعلت كذا فعلي حجة، أو صوم سنة، أو صدقة ما أملكه أجزأه عن ذلك كفارة يمين، وهو قول محمد، ويخرج عن العهدة بالوفاء بما سمى أيضًا إذا كان شرطًا لايريد كونه؛ لأن فيه معنى اليمين وهو المنع وهو بظاهره نذر، فيتخير ويميل إلى أي الجهتين شاء، بخلاف ما إذا كان شرطًا يريد كونه كقوله: إن شفى الله مريضي لانعدام معنى اليمين فيه، قال في الهداية: وهذا التفصيل هو الصحيح، وبه كان يفتي إسماعيل الزاهد، كما في الظهيرية. وقال الولوالجي: مشايخ بلخ وبخارى يفتون بهذا، وهو اختيار شمس الأئمة - ولكثرة البلوى في هذا الزمان -".

(كتاب الأيمان ج: 4 ص: 320 ط: دار الکتاب الاسلامی)

وفیہ ایضاً:

"( قوله: ففيها إن وجد الشرط انتهت اليمين) أي في ألفاظ الشرط إن وجد المعلق عليه انحلت اليمين، وحنث وانتهت؛ لأنها غير مقتضية للعموم والتكرار لغةً فبوجود الفعل مرةً يتم الشرط، ولايتم بقاء اليمين بدونه، وإذا تم وقع الحنث فلايتصور الحنث مرةً أخرى إلا بيمين أخرى أو بعموم تلك اليمين".

(كتاب الأيمان ج: 4 ص: 15 ط: دار الکتاب الاسلامی)

فتاوی شامی میں ہے :

"وفي البدائع: ومن شروطه أن يكون قربة مقصودة فلا يصح النذر بعيادة المريض، وتشييع الجنازة، والوضوء، والاغتسال، ‌ودخول ‌المسجد، ومس المصحف، والأذان، وبناء الرباطات والمساجد وغير ذلك، وإن كانت قربا إلا أنها غير مقصودة اهـ فهذا صريح في أن الشرط كون المنذور نفسه عبادة مقصودة لا ما كان من جنسه، ولذا صححوا النذر بالوقف لأن من جنسه واجبا وهو بناء مسجد للمسلمين كما يأتي مع أنك علمت أن بناء المساجد غير مقصود لذاته".

(‌‌كتاب الأيمان ج: 3 ص: 735 ط: سعید)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144505100704

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں