بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

نذر کے جانور کا بچہ اور دودھ کا حکم


سوال

اگر کسی نے بکری ذبح کرنے کی منت مانی اوراس بکری کا بچہ ہوگیا، تو کیا اس بکری کا بچہ یا دودھ استعمال کرسکتے ہیں یا نہیں؟

جواب

اگر کسی  شخص نے کسی متعین بکری کے ذبح کی نذر مانی ہے، اور اس بکری کا بچہ پیدا ہوگیا ہے ،تو اس صورت میں نذر کے حکم میں بکری اور اس کا بچہ دونوں شامل ہوں گے،  جس کام پر نذر کو معلق کیا ہے وہ کام ہوچکا ہوتو اس صورت میں بکری اور بچے دونوں کو ذبح کرنا لازم ہے، اور بہتر یہ ہے کہ نذر کی ادائیگی میں تاخیر نہ کرے ،اور دونوں کا گوشت فقراء پر صدقہ کیاجائے گا،اس طرح ذبح سے پہلے اس جانور سے فائدہ اٹھانا جائز نہیں ہے،اگر کوئی فائدہ اٹھایا ہے مثلاً دودھ استعمال کیا ہے تو اس کے بقدر رقم صدقہ کرے، البتہ اگر متعین بکری کے ذبح کی نذر نہیں مانی، بلکہ مطلق بکری کے صدقہ کرنے کی نذر مانی تھی، تو اس صورت میں بکری  اور بچےکے ذبح کے بجائے اس کی قیمت کا صدقہ کرنا بھی کافی ہے۔

بدائع الصنائع میں ہے:

"لو نذر بقتل شاة لا يلزمه، ‌ولو نذر بذبحها لزمه."

(كتاب النذر، بيان ركن النذر وشرائطه، ج:5، ص:85، ط: سعید)

فتاوی شامی میں ہے :

"في الخانية قال: إن برئت من مرضي هذا ذبحت شاة فبرئ لا يلزمه شيء إلا أن يقول فلله علي أن أذبح شاة اهـ: وهي عبارة متن الدرر وعللها في شرحه بقوله لأن اللزوم لا يكون إلا بالنذر والدال عليه الثاني لا الأول اهـ.......لكن في البزازية أيضا إن عوفيت صمت كذا لم يجب ما لم يقل لله علي وفي الاستحسان يجب ولو قال: إن فعلت كذا فأنا أحج ففعل يجب عليه الحج. اهـ. فعلم أن تعليل الدرر مبني على القياس والاستحسان خلافه وينافيه أيضا قول المصنف علي شاة أذبحها أو عبارة الفتح فعلي بالفاء في جواب الشرط إذ لا شك أن هذا ليس وعدا ولا يقال إنما لم يلزمه شيء لعدم قوله لله علي لأن المصرح به صحة النذر بقوله لله علي حجة.......وحمل ما في الخانية والدرر من صحة قوله لله علي أن أذبح شاة على القول بأنه يكفي أن يكون من جنسه واجب."

(كتاب الأيمان، مطلب في ‌أحكام النذر، ج:3، ص:740، ط: سعید)

وفیہ ایضاً:

"ولدت الأضحية ولدًا قبل الذبح يذبح الولد معها.

(قوله: قبل الذبح ) فإن خرج من بطنها حيًّا فالعامة أنه يفعل به ما يفعل بالأم، فإن لم يذبحه حتى مضت أيام النحر يتصدق به حيًّا".

(‌‌كتاب الأضحية، ج:6، ص:622، ط: سعید)

وفیہ ایضاً:

"(ويكره) (الانتفاع بلبنها قبله) كما في الصوف، ومنهم من أجازهما للغني لوجوبهما في الذمة فلا تتعين زيلعي."

(‌‌كتاب الأضحية، ج:6، ص:329، ط: سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144410101392

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں