ایسا ہوسکتا ہے کہ جب کسی بات کا ڈر ہو ہم دوسرے کی طرف سے دعا پڑھ دیں؟ جیسے کوئی شخص ایسی باتیں کررہا ہو کہ نظر لگاۓ گا، تو اسے خیال نہ ہو دوسرا شخص پہلے کی نیت کرکے اس کی طرف سے دعا پڑھ دے ؟
صورتِ مسئولہ میں اگر سائلہ کا مطلب یہ ہے کہ منظور الیہ (جس پر نظر لگنے کا خدشہ ہو) کی طرف سے نظر سے حفاظت کی دُعا تیسرا شخص پڑھے، تاکہ اس پر نظرِ بد اثر نہ کرے، تو یہ دُعا پڑھنا اس کے لیے جائز ہوگا، اس سے ان شاء اللہ وہ نظرِ بد سے محفوظ رہے گا، اور اگر سائلہ کا مطلب یہ ہے کہ ناظر (جس کی نظرِبد لگنے کا اندیشہ ہے) کی طرف سےدُعا پڑھے تاکہ اس کی نظرِ بد سے لوگ یا کوئی اور مرغوب چیز محفوظ رہے، اور ناظر کی دُعا نہ پڑھنے کی کوتاہی کا تدارک ہوسکے، تو ایسی صورت میں ناظر اگر قصداً نظر لگاتا ہو، یا اسے علم ہے کہ اس کی نظر لگتی ہے اس کی طرف سے کسی اور کا دعا پڑھناناظر کی غلطی کی اصلاح کے لیےکافی نہیں ہوگا، کیوں کہ ناظر خود شریعت کی رو سے اس بات کا مکلّف ہے کہ وہ اپنی نظر کی حفاظت کرے، اور لوگوں کی جان ، مال اور آبرو کی قدر کرتے ہوئے اپنی نظرِبد سے انھیں بچائے، اور اگر غیر ارادی طور پر بھی اس کی نظر لگ جائے تب بھی وہ اس کے بارے میں برکت کی دعا کرنے کا اہتمام کرے، اور جب بھی اس کو کوئی چیز اچھی لگے تو وہ یہ دُعاپڑھے:"تبارك الله أحسن الخالقين، اللهم بارك فيه" یا اس کے علاوہ کوئی اور برکت والی دعا پڑھ لے۔
عمدۃ القاری میں ہے:
"عن عائشة رضي الله عنها قالت: أمرني رسول صلى الله عليه وسلم أو: أمر أن يسترقى من العين ...
قوله: (أن يسترقي) أي: بطلب الرقية ممن يعرف الرقي بسبب العين، وقال الخطابي: الرقية التي أمر بها رسول الله صلى الله عليه وسلم هو ما يكون بقوارع القرآن، وبما فيه ذكر الله تعالى على ألسن الأبرار من الخلق الطاهرة النفوس، وهو الطب الروحاني، وعليه كان معظم الأمر في الزمان المتقدم الصالح أهله، فلما عز وجود هذا الصنف من أبرار الخليقة مال الناس إلى الطب الجسماني حيث لم يجدوا الطب الروحاني نجوعا في الأسقام لعدم المعاني التي كان يجمعها الرقاة المقدسة من البركات، وما نهى عنه هو رقية العزامين ومن يدعى تسخير الجن."
(عمدة القاري، كتاب المرضى، باب: رقية العين، 21/ 265، ط: دار الفكر)
الفتوحات الربانیہ میں ہے:
"وروينا في كتاب الترمذي والنسائي وابن ماجه عن أبي سعيد الخدري رضي الله عنه قال: "كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يتعوذ من الجان وعين الإنسان حتى نزلت المعوذتان، فلما نزلتا أخذ بهما وترك ما سواهما" قال الترمذي: حديث حسن. وروينا في "صحيح البخاري" حديث ابن عباس رضي الله عنهما، أن النبي كان يعوذ الحسن والحسين: "أعيذكما بكلمات الله التامة من كل شيطان وهامة ومن كل عين لامة، ويقول: إن أباكما كان يعوذ بهما إسماعيل وإسحاق."
(الفتوحات الربانية على الأذكار النواوية، كتاب الأذكار المتفرقة، باب: ما يقوله إذا رأى من نفسه ... ذلك شيئا فأعجبه، 6/ 267، ط: جمعية النشر والتأليف الأزهرية)
فتاوی شامی میں ہے:
"قال عياض: قال بعض العلماء: ينبغي إذا عرف واحد بالإصابة بالعين أن يجتنب ويحترز منه، وينبغي للإمام منعه من مداخلة الناس، ويلزمه بيته وإن كان فقيرا رزقه ما يكفيه فضرره أكثر من ضرر آكل الثوم والبصل، ومن ضرر المجذوم الذي منعه عمر رضي الله عنه وفي النسائي أن النبي صلى الله عليه وسلم قال «إذا رأى أحدكم من نفسه أو ماله أو أخيه شيئا يعجبه فليدع بالبركة فإن العين حق» " والدعاء بالبركة أن يقول: تبارك الله أحسن الخالقين اللهم بارك فيه ويؤمر العائن بالاغتسال ويجبر إن أبى اهـ ملخصا وتمامه فيه والله سبحانه وتعالى أعلم."
(حاشية ابن عابدين، كتاب الحظر والإباحة، 6/ 364، ط: سعيد)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144601100505
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن