بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

نذر معلق کی ادائیگی میں تاخیر کرنا


سوال

 میں نے کہا تھا کہ اگر میرا یہ کام ہوجائے  تو میں پانچ ہزار روپے رمضان الکریم تک صدقہ کروں گا  اب تک میں کچھ روپے صدقہ کرچکا ہے اور کچھ باقی ہیں  تو کیا مابقیہ روپوں کا رمضان تک صدقہ کردینا ضروری ہے  یا رمضان المبارک کے بعد بھی کیا جاسکتا ہے۔

جواب

صورت مسئولہ میں جب سائل نے  نذر مانی کہ میرافلاں کا م ہو گیا تو میں رمضا ن کریم سے پہلے پانچ  ہزار روپے صدقہ کروں گا تو اُس کام کےپورا  ہو جانے کے بعد سائل کے  ذمہ میں پانچ ہزار روپے صدقہ کرنا واجب ہو گیا ہے ،شرط پوری ہو جانے کے بعد بہتر تو  یہ ہے کہ  رمضان سے پہلے ہی پانچ ہزار روپے  صد قہ کر دیے جائیں ،البتہ  اگر کسی عذر کی وجہ سے نذر رمضان سے پہلے    پوری نہ ہو سکے توبعد میں جب آسانی ہو تو اس وقت پوری کرنے کی شرعاًاجازت ہے،اس تاخیر کی وجہ سے سائل گناہ گار نہیں ہو گا۔

فتاویٰ  شامی میں ہے :

"(والنذر) من اعتكاف أو حج أو صلاة أو صيام أو غيرها (غير المعلق) ولو معينا (لا يختص بزمان ومكان ودرهم وفقير) فلو نذر التصدق يوم الجمعة بمكة بهذا الدرهم على فلان فخالف جاز، وكذا لو عجل قبله ۔۔۔ (بخلاف) النذر (المعلق) فإنه لا يجوز تعجيله قبل وجود الشرط."

"(قوله لأنه تعجيل بعد وجوب السبب) ۔۔۔(قوله بخلاف النذر المعلق) أي سواء علقه على شرط يريده مثل إن قدم غائبي أو شفي مريضي، أو لا يريده مثل إن زنيت فلله علي كذا لكن إذا وجد الشرط في الأول وجب أن يوفي بنذره وفي الثاني يخير بينه وبين كفارة يمين على المذهب لأنه نذر بظاهره يمين بمعناه كما سيأتي في الأيمان إن شاء الله تعالى (قوله فإنه لا يجوز تعجيله إلخ) لأن المعلق على شرط لا ينعقد سببا للحال بل عند وجود شرطه كما تقرر في الأصول، فلو جاز تعجيله لزم وقوعه قبل وجود سببه فلا يصح ويظهر من هذا أن المعلق يتعين فيه الزمان بالنظر إلى التعجيل، أما تأخيره فيصح لانعقاد السبب قبله، وكذا يظهر منه أنه لا يتعين فيه المكان والدرهم والفقير لأن التعليق إنما أثر في تأخير السببية فقط فامتنع التعجيل، أما المكان والدرهم والفقير فهي باقية على الأصل من عدم التعيين لعدم تأثير التعليق في شيء منها فلذا اقتصر كغيره في بيان وجه المخالفة بين المعلق وغيره على قوله فإنه لا يجوز تعجيله فأفاد صحة التأخير وتبديل المكان والدرهم والفقير كما في غير المعلق وكأنه لظهور ما قررناه لم ينصوا عليه وهذا مما لا شبهة فيه لمن وقف على التوجيه فافهم."

(كتاب الصوم  ،مطلب في الصوم الست من  شوال ،ج:2 ،ص:436/37   ،ط:ايچ ايم سعيد كراچي)

وفيه ايضاّ:

" ويظهر من هذا أن المعلق يتعين فيه الزمان بالنظر إلى التعجيل، أما تأخيره فالظاهر أنه جائز إذ لا محذور فيه."

(كتاب الايمان   ،مطلب النذر غير المعلق لايختص بزمان ومكان ودرهم وفقير ،ج:3 ،ص:741 ،ط:ايچ ايم سعيد كراچي )

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144508101918

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں