بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

4 ذو القعدة 1445ھ 13 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

نئے نوٹ کے بدلے اضافی رقم لینا کیا سود میں شامل ہے؟


سوال

آج کل پیسوں کے نئے نوٹ لینے کے  لیے جب  کسی  دکان یا بینک سے وصول کرتے ہیں تو  دکاندار  یا بینک والا ہزار روپے کے نئےنوٹ  کے بدلے اضافی رقم مانگتا ہے تو  کیا یہ  اضافی  رقم سود  ہے کہ نہیں؟

جواب

بصورتِ مسئولہ  جو نوٹ ایک ہی  ملک کے ہوتے ہیں اورایک ہی قسم کی مالیت رکھتے ہیں،  اگرچہ  پرانے اور نئے ہوں ان کا آپس  میں  تبادلہ  مساوی  طور  پر  ہاتھ   در  ہاتھ   جائز ہے، کمی  زیادتی  کے   ساتھ   تبادلہ  سود  ہونے  کی  وجہ سے  ناجائزہے، لہٰذا نئے نوٹوں کو پرانے نوٹوں کے بدلے کمی بیشی کے ساتھ خریدنا یا  فروخت کرنا ناجائز اور سود ہے۔

اگر ایسا عقد کرنا ضروری ہو تو جواز کی صورت یہ ہوسکتی ہے کہ نئے نوٹ دینے والا شخص نئے نوٹوں کے ساتھ مثلاً ہزار روپے کی مالیت نوٹ کے ساتھ کوئی اضافی چیز ملاکر ایک ہی عقد میں فروخت کرے، مثلاً: ایک قلم ساتھ  رکھ دے، چنانچہ ایک ہزار روپے کے عوض ایک ہزار روپے ہوجائیں گے، اور اضافی رقم قلم کے عوض ہوجائے گی۔ 

فتاوی شامی میں ہے:

"(هو) لغة الزيادة. و شرعًا (بيع الثمن بالثمن) أي ما خلق للثمنية و منه المصوغ (جنسًا بجنس أو بغير جنس) كذهب بفضة (و يشترط) عدم التأجيل و الخيار و (التماثل)  أي التساوي وزنًا (والتقابض) بالبراجم لا بالتخلية (قبل الافتراق) و هو شرط بقائه صحيحًا على الصحيح (إن اتحد جنسًا و إن) وصلية (اختلفا جودةً و صياغةً) لما مرّ في الربا.

(قوله: و إن اختلفا جودةً و صياغةً) قيد إسقاط الصفقة بالأثمان؛ لأنه لو باع إناء نحاس بمثله و أحدهما أثقل من الآخر جاز مع أن النحاس و غيره مما يوزن من الأموال الربوية أيضا؛ لأنّ صفة الوزن في النقدين منصوص عليها فلاتتغير بالصنعة و لايخرج عن كونه موزونًا بتعارف جعله عدديًّا لو تعورف ذلك بخلاف غيرهما، فإن الوزن فيه بالعرف فيخرج عن كونه موزونًا بتعارف عدديته إذا صيغ و صنع، كذا في الفتح، حتى لو تعارفوا بيع هذه الأواني بالوزن لا بالعدد لايجوز بيعها بجنسها إلا متساويًا، كذا في الذخيرة نهر."

(کتاب البیوع، باب الصرف، ج:5، ص:257، ط: سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144403100589

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں