بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

نیا پاکستان ہاؤسنگ اسکیم کے تحت سودی قرضہ لینا


سوال

1-نیا پاکستان ہاؤسنگ سکیم کے تحت حکومت مختلف بینکوں کے ذریعے سے قرض دے رہی ہے، جس میں صارف پانچ پرسنٹ سود دے گا، جب کہ باقی کا سود حکومت خود ادا کرے گی ۔ اگر ایک شخص اس قابل نہیں کہ وہ  اپنا گھر بنا سکے تو کیا اس شخص کا یہ قرض لینا جائز ہے ؟

2-میزان بینک اپنے تمام معاملات شرعی اصولوں کو مد نظر رکھ کر طے کرتا ہے تو کیا اپنا گھر بنانے کے لیے میزان بینک سے قرضہ لینا جائز ہے ؟

 

جواب

صورتِ مسئولہ میں  نیا پاکستان ہاؤسنگ  اسکیم کے تحت  گھر بنانے  کے لیے  حکومت سے سودی قرضہ لینا   ناجائز اور حرام ہے۔ 

نیز واضح رہے کہ  ملک کے مقتدر مفتیانِ کرام  کی رائے یہ ہے کہ  مروجہ غیر سودی بینکوں کا طریقہ کار شرعی اصولوں کے مطابق نہیں ہے،  اور مروجہ غیر سودی بینک اور  روایتی بینک کےبہت سے  معاملات درحقیقت ایک جیسے ہیں، لہذا روایتی بینکوں کی طرح ان سے بھی  تمویلی معاملات کرنا جائز نہیں ہے۔

لہذا   میزان بینک سمیت دیگر موجودہ اسلامک بینکوں سے house loan (گھر خریدنے کے لیے قرضہ) لینا شرعاً جائز نہیں ہے؛  کیوں کہ  ہوم لون  ان کی اصطلاح میں "شرکتِ متناقصہ"کے تحت  جاری ہوتا ہے اور اس معاملے میں بہت سے شرعی اصولوں کی خلاف ورزی لازم آتی ہے، مثلاً ایک ہی معاملے میں  كئي عقود (بیع، شرکت اور اجارہ) کو جمع کرنا اور عملاً ایک دوسرے کے لیے شرط قرار دینا وغیرہ۔

باقی  ضرورت کے لیے  کسی رشتہ دار یا شناسا شخص سے قرض لیا جاسکتا ہے، اور اگر کوئی بندوبست نہ ہو تو اللہ تعالیٰ پر توکل کرتے ہوئے قناعت کرنا چاہیے، کیوں کہ قرض لینے کے بعد اس قرض کی ادائیگی کا بھی تو انتظام کرنا ہوگا، اس وقت جیسے محنت کرکے حلال رقم سے ادائیگی کا انتظام کیا جائے گا، ابھی سے کوشش کرلی جائے تاکہ سودی قرض لینے کی ہی نوبت نہ آئے، اور اگر بعد میں ادائیگی میں حلال کا اہتمام نہ ہو تو یہ گناہ در گناہ ہوجائے گا، کہیں اس سے زیادہ پریشانی نہ ہوجائے، اور سودی قرضہ اتارنے کے لیے  پھر سودی قرضے لینے کا سلسلہ   نہ کرنا   پڑجائے، اور آدمی  اگر حرام سے بچنے  کے لیے ہمت بلند رکھے اور اللہ تعالیٰ پر بھروسہ رکھے تو اللہ کی طرف سے مدد ہوتی ہے، اور اللہ تعالی ایسی جگہ سے بندوبست کرتے ہیں جو اس کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوتی۔

پس دنیا جانتی ہے اور ہمیں بھی جاننا چاہیے کہ اس کائنات میں  مالی اعتبار سے مختلف حیثیات کے لوگ آباد ہیں، سب ایک جیسے نہیں ہیں، اس لیے شرعی اصولوں کے مطابق ہمارا نظریہ یہ ہونا چاہیے کہ ہم  مالی حیثیت اور مالی مراعات  میں اپنے سے کم تر لوگوں کو دیکھیں، اپنے سے اوپر والوں کو نہ دیکھیں، دوسرا یہ کہ اپنی ضروریات اور تعیشات کی تشخیص بھی کرلیں، مزید یہ کہ ہم سب اسباب و متاع کی فروانی کے باجود معاشی سے زیادہ معادی (آخرت کی طرف لوٹنے والے) انسان ہیں، آخرت کا خیال اور دھیان بھی رکھیں تو ہمارا بوجھ کم ہوجائے گا، ان شاءاللہ۔

ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

{وَمَنْ يَتَّقِ اللَّهَ يَجْعَلْ لَهُ مَخْرَجًا وَيَرْزُقْهُ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُ وَمَنْ يَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ فَهُوَ حَسْبُهُ إِنَّ اللَّهَ بَالِغُ أَمْرِهِ قَدْ جَعَلَ اللَّهُ لِكُلِّ شَيْءٍ قَدْرًا} [الطلاق: 2، 3]

حدیث مبارک میں ہے:

"عَنْ جَابِرٍ، قَالَ: «لَعَنَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ آكِلَ الرِّبَا، وَمُؤْكِلَهُ، وَكَاتِبَهُ، وَشَاهِدَيْهِ» ، وَقَالَ: «هُمْ سَوَاءٌ»".

(الصحیح لمسلم، 3/1219، کتاب المساقات،دار احیاء التراث ، بیروت۔مشکاۃ المصابیح،  باب الربوا، ص: 243، قدیمی)

      مشكاة المصابيح  میں ہے:

"وعن أبي هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «الربا سبعون جزءًا أيسرها أن ینکح الرجل أمه».

(1/246، باب الربوا ، ط؛ قدیمی)

اعلاء السنن میں ہے:

"قال ابن المنذر: أجمعوا على أن المسلف إذا شرط على المستسلف زیادة أو ھدیة  فأسلف على ذلك إن أخذ الزیادة علی ذلك ربا".

(14/513، باب کل قرض جرّ منفعة، کتاب الحوالة، ط: إدارۃ القرآن)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144206200836

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں