بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

نئے کام کی شروعات اور نئے مکان و دکان کے افتتاح کے وقت شرعی احکام


سوال

نئی  دکان ، نئی گاڑی، نیا مکان،اور نیا کام وغیرہ کے وقت افتتاح اور شروعات کا شرعی طریقہ کیا ہے؟

جواب

واضح رہے کہ کسی بھی شخص کے لیےنئے کام کی ابتداءو شروعات اور نئی گاڑی ،یادکان و مکا ن وغیرہ کا افتتاحی عمل  ایک بابرکت اور خوشی کا موقع ہوتاہے،البتہ ایسے مواقع پراگرچہ سنت سے کوئی مخصوص عمل ثابت نہیں ہے،تاہم ایک مسلمان کو اس موقع پر خیر و برکت کے حصول کے لیے قرآن مجید پڑھنے کا اہتمام کرناچاہیے،اور اگر یہ افتتاحی عمل کسی بابرکت اور نیک شخصیت کو بلا کر کروایاجائےاور دعا وغیرہ کروائی جائےتو اس میں بھی کوئی حرج نہیں ہے،نیز ایسے خوشی اور سرور کے مواقع پر بطورِ شکر اور نعمت کے اظہار کی خاطر بغیر کسی التزام کے اپنی وسعت کی حدتک بغیر اسراف و تبذیر کے کچھ ضیافت کردی جائےتو اس میں بھی کوئی حرج نہیں ہے، البتہ مذکورہ امور کو شریعت کاحکم سمجھ کرنہ کیاجائےاور نہ ہی اس کا التزام کیاجائے۔

البحر الرائق میں ہے:

"الوليمة طعام العرس ‌والوكيرة طعام البناء والخرس طعام الولادة وما تطعم النفساء نفسها خرسة وطعام الختان إعذار وطعام القادم من سفره نقيعة وكل طعام صنع لدعوة مأدبة ومادية ."

(كتاب الإجارة، ج:7، ص:302، ط:دارالكتاب الإسلامي)

دررالحکام شرح غررالاحکام میں ہے:

"قال الوليمة طعام العرس والخرس طعام الولادة والمأدبة طعام الختان ‌والوكيرة طعام البناء والعقيقة طعام الحلق والنقيعة طعام القادم والوضيمة طعام التعزية وكلها ليست بسنة إلا طعام العرس فإنه سنة لقوله - عليه الصلاة والسلام - «أولم ولو بشاة»."

(كتاب الأضحية، ج:1، ص:266، ط:داراحياء التراث العربي)

المغنی میں ہے:

"‌‌فصل في الوليمة: واشتقاقها كما قال الأزهري من الولم، وهو الاجتماع؛ لأن الزوجين يجتمعان، ومنه: أولم الرجل إذا اجتمع عقله وخلقه، وهي تقع على كل طعام يتخذ لسرور حادث من عرس وإملاك وغيرها، لكن استعمالها مطلقة في العرس أشهر، وفي غيره بقيد، فيقال: وليمة ختان أو غيره، وهي لدعوة الأملاك، وهو العقد: وليمة وملاك وشندخي، وللختان إعذار بكسر الهمزة وإعجام الدال، وللولادة عقيقة، وللسلامة من الطلق خرس بضم الخاء المعجمة وسين مهملة، وتقال بصاد، وللقدوم من السفر نقيعة من النقع، وهو الغبار، وهي طعام يصنع له، سواء أصنعه القادم أم صنعه غيره له كما أفاده كلام المجموع في آخر صلاة المسافر، وللبناء وكيرة: من الوكر، وهو المأوى، وللمصيبة وضيمة بكسر الضاد المعجمة، وقيل هذه ليست من الولائم نظرا لاعتبار السرور، لكن ظاهر كلامهم أنه منها، ويوجه كلامهم بأن اعتبار السرور إنما هو في الغالب، ولحفظ القرآن حذاق بكسر الحاء المهملة وبذال معجمة، وبلا سبب مأدبة بضم الدال وفتحها، ‌والكل ‌مستحب."

(فصل في الوليمة، ج:4، ص:403، ط:دارالكتب العلمية)

فتاوی حقانیہ میں ہے:

نیاکام شروع کرنے پرقرآن خوانی کا اہتمام کرنا

"سوال: جناب مفتی صاحب! آجکل یہ ایک عام رواج بن چکاہے کہ جب کوئی نیاکام شروع کرتے ہیں یا مکان وغیرہ بناتے ہیں تو اس میں خیروبرکت کی غرض سے چندلوگوں کو بُلاکر ان سے قرآن مجید کا ختم کرایا جاتا ہے،اور یہاں تک اس کا اہتمام ہوتا ہے کہ اس وقت تک کوئی کام شروع ہی نہیں کرتے جب تک قرآن مجید کا ختم نہ کرالین، شرعاً ایسے ختمِ قرآن کا کیا حکم ہے؟

جواب: قرآن کریم کی تلاوت فی نفسہِ خیروبرکت کا ذریعہ ہے، اس کے پڑھنےیا پڑھوانے سے کاروبار ، گھر اور دوکان وغیرہ میں برکت ہوتی ہے،مگر اس کو دین کا جُز نہیں سمجھنا چاہیے، بغیر ختمِ قرآن کے بھی اللہ تعالیٰ سے خیروبرکت کی دعا مانگی جاسکتی ہےاور مانگنی چاہیے،البتہ ختمِ قرآن کو ایک رسم کی شکل دے کر ضروری سمجھنا اور اس کا خوب اہتمام کرنا دین میں زیادتی کے مترادف ہونے کی وجہ سے ناجائز ہے۔"

(کتاب البدعۃ والرسوم،جلددوم، صفحہ نمبر:75، ط:مکتبۃ سید احمد شہید )

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144408101191

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں