بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

نئے گھر میں منتقل ہونے کے لیے عمل


سوال

میری بہن نے نیا گھر بنایا ہے میری بہن ایک بیوہ ہے اور مجھ کو عزیز بھی ہے وہ اپنے نئے گھر میں جو کہ ملیر میں بنوایا ہے اس میں اپنے اکلوتے بیٹے کی شادی وہاں سے کرنا چاہتی ہے میں خاص اسی مقصد سے کینڈا سے اپنی سخت بیماری کی حالت میں آیا ہوں۔ سوال میرا یہ ہے کہ ہم کینڈا میں اگر کوئی نئے گھر میں منتقل ہو رہا ہوتا ہے تو پہلے اس گھر میں میں ہم دوست مل کر سورۃ بقرہ کی تلاوت کرتے ہیں تھوڑی بلند آواز میں۔ کیوں  کہ جگہیں پہلے جنگل ہوا کرتی تھیں اور ان جنگلات میں جنات کی رہائش ہوتی تھی،  لیکن حضرت انسان نے اپنی تعداد اتنی بڑھاتی کہ ہم جنگلوں کی طرف نکل پڑے اور اب وہاں گھر بن چکے ہیں ۔کیا سورۃ بقرۃ کی تلاوت کی جاۓ تو بہتر رہے گا اور کیا اس کے بارے میں جو روایات ملتی ہیں وہ کچھ احادیث سے ثابت ہیں؟

جواب

نئے گھر میں منتقل ہونے کے موقع پر باقاعدہ کوئی مستقل عمل قرآن و حدیث میں وارد نہیں، البتہ احادیث میں اس بات کی ترغیب ملتی ہے کہ گھروں میں نفل نمازوں اور قرآن کریم کی تلاوت کی کثرت کرنی چاہیے، کیوں کہ یہ عمل گھر کی خیر و برکت کا باعث ہے اور شیاطین کے شرور اور جادو وغیرہ سے حفاظت کا سبب ہے، چنانچہ ایک حدیث میں وارد ہے کہ اپنے گھروں کو قبرستان مت بناؤ  (کہ نہ اس میں نمازیں پڑھی جائیں اور نہ ہی قرآن پاک کی تلاوت کی جائے) ؛ کیوں کہ جس گھر میں سورہ بقرہ کی تلاوت کی جاتی ہے اس گھر سے شیطان بھاگ جاتا ہے، اسی طرح ایک دوسری روایت میں ہے کہ  سورہ بقرہ کا پڑھنا باعثِ برکت اور جادو سے حفاظت کا ذریعہ ہے؛  لہٰذا نئے گھر میں  منتقل ہوکر اگر انفرادی طور پر کچھ  نفل   نماز پڑھ لی جائے اور قرآن پاک کی تلاوت  (خاص کر سورہ بقرہ )  کرلی جائے تو یہ باعثِ برکت اور شیاطین کے شر اور جادو  وغیرہ کے اثرات سے  حفاظت کا ذریعہ ہوگا۔

صحیح مسلم میں ہے:

" حدثنا قتيبة بن سعيد، حدثنا يعقوب وهو ابن عبد الرحمن القاري، عن سهيل، عن أبيه، عن أبي هريرة، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: «لا تجعلوا بيوتكم مقابر، إن الشيطان ينفر من البيت الذي تقرأ فيه سورة البقرة."

(کتاب الصلاۃ، باب استحباب صلاۃ النافلة في بیته و جوزها في المسجد، ج:۱ ص: ۵۳۹ ط: مطبعۃ عیسی البابی الحلبی و شرکائه، القاهرة) 

صحیح مسلم میں ہے:

" حدثني الحسن بن علي الحلواني، حدثنا أبو توبة وهو الربيع بن نافع، حدثنا معاوية يعني ابن سلام، عن زيد، أنه سمع أبا سلام، يقول: حدثني أبو أمامة الباهلي، قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: «اقرءوا القرآن فإنه يأتي يوم القيامة شفيعا لأصحابه، اقرءوا الزهراوين البقرة، وسورة آل عمران، فإنهما تأتيان يوم القيامة كأنهما غمامتان، أو كأنهما غيايتان، أو كأنهما فرقان من طير صواف، تحاجان عن أصحابهما، اقرءوا سورة البقرة، فإن أخذها بركة، وتركها حسرة، ولا تستطيعها البطلة». قال معاوية: بلغني أن البطلة: السحرة."

(کتاب الصلاۃ ، باب فضل قراءۃ القرآن و سورۃ البقرۃ ج:۱ ص:۵۵۳ ط: مطبعۃ عیسی البابی الحلبی و شرکائه ، القاهرۃ) 

فقط و اللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144307200047

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں