بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

نوے سالہ مریض کا پیشاب کے قطروں کی تکلیف کی وجہ سے ناپاک کپڑوں میں نماز پڑھنا


سوال

 پیشاب  کے  قطرے اور زیادتی سے ہونے والے کپڑوں کی ناپاکی کے ساتھ نماز کا کیا حکم ہے،  جب کہ مریض کی عمر نوے سال ہے جو وضو کرنے کی سکت نہیں رکھتا  اوردوسرے کی مدد کے بغیر چلنے پھرنے اٹھنے بیٹھنے سے قاصر ہے ؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں اگر مذکورہ شخص کو  پیشاب کے قطرے آنے کی ایسی بیماری ہو کہ کسی ایک نماز کے مکمل وقت میں پاک اور باوضو ہو کر اس وقت کی فرض نماز پڑھنے کا وقت بھی اس عذر کے بغیر  نہ  ملے، یعنی درمیان میں اتنا وقفہ بھی نہ ملے  کہ ایک وقت کی فرض نماز ادا کر سکیں  تو وہ   شرعًا معذور کہلائیں گے۔

 شرعی معذور کا حکم یہ ہے کہ ہر فرض نماز کے وقت وضو کرلے اور پھر اس وضو سے اس ایک وقت میں جتنے چاہے فرائض اور نوافل ادا کرے اور تلاوت قرآن کریم کرلے (خواہ اس ایک وقت کے درمیان قطرے جاری رہیں، دوبارہ وضو کرنے کی ضرورت نہیں ہوگی) یہاں تک کہ وقت ختم ہوجائے، جیسے ہی اس فرض نماز کا وقت ختم ہوگا تو  وضو بھی ختم ہوجائے گا اور پھر اگلی نماز کے لیے دوبارہ وضو کرنا ہوگا۔
اور اگر یہ قطرے کپڑوں پر لگے ہوئے ہوں تو اس صورت میں یہ دیکھا جائے گا کہ وہ کس تسلسل سے نکل رہے ہیں  اگر اتنا وقفہ ملتاہو کہ کپڑادھوکرنماز پڑھے تو نماز کے درمیان میں وہ دوبارہ ناپاک نہ ہوتا ہو تب تو اس کے ذمے دھونا واجب ہوگا ، اوراگر یہ حالت ہو کہ کپڑا دھو کر نماز پڑھنے کے درمیان وہ پھرناپاک ہوجاتا ہو تو دھونا واجب  نہیں ہوگا۔

اور اگر ان قطروں میں  مقدارِ نماز کے برابر تسلسل نہیں ہے یعنی   پیشاب کے قطرے کچھ دیر آنے کے بعد بند ہوجاتے ہیں یا درمیان میں اتنا وقفہ ہوجاتا ہے کہ جس میں فرض نماز ادا کی جاسکتی ہے  تو ایسی صورت میں وہ  شرعاً معذورین میں شامل نہیں ہے،اس صورت میں ان قطروں کے آںے سے وضو  ٹوٹ جائے گا اور کپڑے بھی ناپاک ہوجائیں گے اور ان کا دھونا (جب کہ وہ مقدارِ درہم سے تجاوز کرجائیں) واجب ہوگا۔

لیکن ان دونوں صورتوں میں اگر مریض خود  اپنے کپڑے نہیں بدل سکتا ، اور نہ کوئی ایسا شخص موجود ہو  جس سے مذکورہ شخص  تعاون لے  سکتے ہیں مثلاً خادم، بیٹا، اور بیوی  وغیرہ یا ایسا شخص تو موجود ہو  لیکن کپڑے بدلنے میں مریض کو تکلیف زیادہ ہونے کا اندیشہ ہو تو  اس صورت میں ان ہی کپڑوں میں نماز پڑھ لینے کی گنجائش ہوگی۔

 اور وضو میں بھی یہ تفصیل ہے اگر مریض خود وضو نہیں کرسکتا اور کوئی ایسا شخص بھی موجود نہ ہو  جس سے یہ  تعاون لے سکتا ہو مثلاً خادم، بیٹا، اور بیوی  وغیرہ تو اس کے لیے تیمم کرنا جائز ہوگا، اگر کوئی ایسا شخص موجود ہے تو اس کی مدد سے وضو کرنا لازم ہوگا۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 306):

(وإن سال على ثوبه) فوق الدرهم (جاز له أن لا يغسله إن كان لو غسله تنجس قبل الفراغ منها) أي: الصلاة (وإلا) يتنجس قبل فراغه (فلا) يجوز ترك غسله، هو المختار للفتوى،وكذا مريض لايبسط ثوبه إلا تنجس فورًا له تركه.

(قوله: وكذا مريض إلخ) في الخلاصة مريض مجروح تحته ثياب نجسة، إن كان بحال لا يبسط تحته شيء إلا تنجس من ساعته له أن يصلي على حاله، وكذا لو لم يتنجس الثاني إلا أنه يزداد مرضه له أن يصلي فيه بحر من باب صلاة المريض.
و الظاهر أن المراد بقوله " من ساعته " أن يتنجس نجاسة مانعة قبل الفراغ من الصلاة كما أشار إليه الشارح بقوله وكذا."

البحر الرائق (1/ 147):

"(قوله: أو لمرض) يعني يجوز التيمم للمرض وأطلقه، وهو مقيد بما ذكره في الكافي من قوله بأن يخاف اشتداد مرضه لو استعمل الماء فعلم أن اليسير منه لايبيح التيمم، وهو قول جمهور العلماء إلا ما حكاه النووي عن بعض المالكية، وهو مردود بأنه رخصة أبيحت للضرورة ودفع الحرج، وهو إنما يتحقق عند خوف الاشتداد والامتداد ولا فرق عندنا بين أن يشتد بالتحرك كالمبطون أو بالاستعمال كالجدري أو كأن لا يجد من يوضئه ولا يقدر بنفسه اتفاقا، وإن وجد خادما كعبده وولده وأجيره لا يجزيه التيمم اتفاقا كما نقله في المحيط، وإن وجد غير خادمه من لو استعان به أعانه ولو زوجته فظاهر المذهب أنه لا يتيمم من غير خلاف بين أبي حنيفة وصاحبيه كما يفيده كلام المبسوط والبدائع وغيرهما". 

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 234):

" لكن قدمنا أن ظاهر المذهب أنه لا يجوز له التيمم إن كان لو استعان بالزوجة تعينه وإن لم يكن ذلك واجباً عليها." 

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144110200658

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں