بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ناول پڑھنے کا حکم


سوال

کیا میں ایک ناول پڑھ سکتا ہوں جو ایک فرضی کہانی پرمشتمل ہو، اور اس میں حقیقت سے الگ باتیں ہوں ،اور الگ طرح کے جاندار بتائے گئے ہوں ۔

جواب

واضح رہے کہ اگر ناول فحش کلام پر مشتمل ہو،اور اس میں جرائم کی تعلیم ،عشق و محبت اور ناجائز تعلقات کی داستانیں ،اور  فحش و اخلاق سوز باتوں کا سبب بنے اور منفی کردار کی طرف متوجہ کرے،اور ان ناولوں میں لگ کر اسے زندگی کا معمول بنالیا جائے ،اور اس میں اتنی مشغولیت اور دلچسپی لی جائے جس سے اصل ذمہ داریاں نماز و روزہ وغیرہ سے غافل ہوکر اپنی قیمتی اوقات ضائع کیے جائیں تو اس طرح ناولوں کا پڑھنا جائز نہیں ،تاہم اگر کسی ناول کا موضوع مفید نہ ہولیکن اسے پڑھنے کا مقصد صرف اس زبان میں مہارت اور ادبی افادیت ہو تو ایسے ناول کو پڑھنے کی گنجائش ہے۔

قرآن پاک میں ہے:

"وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَّشْتَرِي لَهْوَ الْحَدِيثِ لِيُضِلَّ عَنْ سَبِيلِ اللهِ بِغَيْرِ عِلْمٍ وَيَتَّخِذَهَا هُزُوًا أُولَئِكَ لَهُمْ عَذَابٌ مُهِينٌ ." [ لقمان : 6 ]

ترجمہ:" اور بعض لوگ ایسے  بھی ہیں جو ان باتوں کے خریدار بنتے ہیں جو اللہ سے غافل کرنے والی ہیں، تاکہ اللہ کی یاد سے بے سمجھے گمراہ کرے اور اس کی ہنسی اڑائے ، ایسے لوگوں کے لیے ذلت کا عذاب ہے۔"

(تفسير ابن كثير،سورة لقمان ،ج: 6، ص: 96 ،ط: دار الكتب العلمية)

ترمذی شریف میں ہے:

"عن أبي أمامة، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: لا تبيعوا القينات ولا تشتروهن ولا تعلموهن، ولا خير في ‌تجارة فيهن وثمنهن حرام، وفي مثل ذلك أنزلت عليه هذه الآية "ومن الناس من يشتري لهو الحديث ليضل عن سبيل الله" إلى آخر الآية".

(ابواب التفسير، باب ومن سورة لقمان، ج: 5، ص: 198 ،ط: دارالغرب الاسلامي)

 فتاوی شامی میں ہے:

"قال ابن مسعود: صوت اللهو و الغناء ينبت النفاق في القلب كما ينبت الماء النبات. قلت: و في البزازية: إستماع صوت الملاهي كضرب قصب و نحوه حرام ؛لقوله عليه الصلاة و السلام: استماع الملاهي معصية، و الجلوس عليها فسق، و التلذذ بها كفر، أي بالنعمة".

( کتاب الحظر والاباحة، ج: 6، ص: 348 + 349 ،ط: سعيد)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے شاعری کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

"هُوَ کَلَامٌ فَحَسَنُهٗ حَسَنٌ وَقَبِیْحُهُ قَبِیْحٌ."

ترجمہ:" یہ کلام  ہے چنانچہ اچھا شعر اچھا کلام، اور برا شعر برا کلام ہے۔"

(أبو یعلی، المسند، ج8: ص200، رقم: 4760، دمشق: دار المأمون للتراث)

فتاوی شامی میں ہے:

"وحديث "حدثوا عن بني إسرائيل" يفيد حل سماع الأعاجيب والغرائب من كل ما لا يتيقن كذبه بقصد الفرجة لا الحجة بل وما يتيقن كذبه لكن بقصد ضرب الأمثال والمواعظ وتعليم نحو الشجاعة على ألسنة آدميين أو حيوانات ذكره ابن حجر۔

(قوله بقصد الفرجة لا الحجة) الفرجة مثلثة التفصي عن الهم والحجة بالضم البرهان قاموس (قوله لكن بقصد ضرب الأمثال إلخ) وذلك كمقامات الحريري، فإن الظاهر أن الحكايات التي فيها عن الحارث بن همام والسروجي لا أصل لها، وإنما أتى بها على هذا السياق العجيب لما لا يخفى على من يطالعها."

(كتاب الحظر و الإباحة ، فصل في البيع، ج: 6، ص: 405، ط: سعيد)

معارف القرآن میں ہے:

"اس زمانے میں بیشتر نوجوان فحش ناول یاجرائم پیشہ لوگوں کے حالات پر مشتمل قصے یا فحش اشعار دیکھنے کے عادی ہیں،یہ سب چیزیں اسی قسم لہو حرام میں داخل ہیں ،اسی طرح گمراہ اہل باطل کے خیالات کا مطالعہ بھی عوام کے لیے گمراہی کا سبب بننے کی وجہ سے ناجائز ہے۔"

(معارف القرآن ،ج: 7، ص: 23، ط: مکتبہ معارف القرآن)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144504100561

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں