بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

نواسیوں کو دی گئی رقم خرچ کر دینے کا حکم


سوال

ہم دو بھائیوں نے ایک مکان قسطوں پر خریدا، جس میں والد صاحب نے ہمیں دس لاکھ روپے دے دیے اور کہا کہ یہ تم دونوں کا ہے، یہ نہیں کہا کہ یہ قرض ہے، ہم قسطیں ادا کر رہے تھے، والدہ صاحبہ کا بھی ایک مکان تھا، والدہ نے وہ مکان 27 لاکھ روپے پر فروخت کر کے پیسے ہمیں دے دیے، کہا کہ قسطیں ادا کرو، اور مکان اپنے قبضے میں لے لو، والدہ ہم دونوں کے ساتھ رہتی تھیں، اس کے علاوہ کچھ نہیں کہا، قرض کی بھی کوئی بات نہیں کہی۔

والدہ نے انتقال سے پہلے یہ کہا کہ: اس گھر کے تین حصے ہونے چاہیے، ایک میرا (والدہ کا)، ایک بڑے بیٹے اور اور ایک چھوٹے بیٹے کا، یعنی ہم دونوں کے حصے، ہم نے کہا: ٹھیک ہے۔ اس میں ایک حصہ آپ کا ہے، پھر تقسیم نہیں کیا؛ کیوں کہ اسی گھر میں رہتی تھیں۔

1. اب پوچھنا یہ ہے کہ اس مکان میں والدہ کا حصہ ہے یا نہیں؟اگر ہے تو اس کی تقسیم کس طرح ہو گی؟ والدہ کے ورثاء میں ہم دو سگے بھائی(بیٹے)، ایک ہمارا سوتیلا بھائی یعنی ماں شریک بھائی ہے اور ایک ہماری سگی بہن  ہے۔ شوہر اور والدین پہلے انتقال کر چکے ہیں۔

2. ہماری والدہ کے پاس 215 گرام سونا تھا،  والدہ نے زندگی میں کہا کہ: اس میں اپنی دو پوتیوں کو، ایک نواسی اور ایک بہو کے لیے  ایک جیسا سیٹ بنواؤں تو بیٹی نے کہا ابھی چھوڑو، بعد میں بنوائیں گے؛ کیوں کہ ابھی آپ کی طبیعت خراب ہے، پھر اس وقت نہیں بنایا گیا۔ پوچھنا یہ ہے کہ یہ سونا میراث میں تقسیم ہو گا یا نہیں؟

3. والد صاحب نے دو لاکھ روپے دو نواسیوں کو دیے تھے، لیکن قبضہ بیٹی کا تھا، یعنی بیٹی کے پاس تھے، پھر بیٹی نے وہ پیسے والدہ کے پاس رکھوا لیے، نواسیوں تک نہیں پہنچ سکے، تو وہ دو لاکھ روپے ہماری والدہ  کے علاج میں خرچ ہو گئے، اب اس کا کیا کیا جائے؟

جواب

1.  صورتِ مسئولہ میں سائل کے والد نے دس لاکھ اور والدہ نے  ستائیس  لاکھ روپے دیتے  وقت  چونکہ قرض وغیرہ کی کوئی صراحت نہیں کی تھی؛ اس لیے اِن دونوں کی طرف سے یہ رقوم  سائل اور اُس کے بھائی کے لیے تبرع (ہدیہ) ہوئیں،  نتیجۃً سائل اور اُس کا بھائی  ان رقوم سے خریدے گئے مکان کے مالک بن گئے، پھر والدہ کا انتقال سے پہلے یہ خواہش کرنا کہ   "اس گھر کے تین حصے ہونے چاہییں، ایک میرا (والدہ کا)، ایک بڑے بیٹے اور اور ایک چھوٹے بیٹے کا ،اور بیٹوں نے اسے زبانی تسلیم تو کیا لیکن  مکان تقسیم نہیں کیا ،تو محض اس  زبانی بات چیت سے   والدہ   اِس مکان میں  حصہ دار نہیں بنیں، لہذا یہ مکان ان ہی دو بھائیوں کا شمار ہوگا ۔ والدہ کے دیگر  ورثاء کا اس میں کوئی حصہ نہیں ہو گا۔

2. سائل کی والدہ نے اپنے سونے سے پوتیوں، نواسی اور بہو کے سیٹ بنانے کی جو خواہش کی تھی اِس خواہش کی وجہ سے  وہ سونا اُن کی ملکیت سے خارج نہیں ہوا، اب وہ سونا مرحومہ کا  ترکہ شمار ہو کر اُن کے تمام ورثاء میں تقسیم ہو گا۔

3. والدہ نے جو رقم نواسیوں کے لیے اپنی بیٹی کو دی تھی اور نواسیوں کے حوالہ نہیں کی تھی وہ رقم نواسیوں کی ملکیت میں داخل نہیں ہوئی تھی؛ کیوں کہ اگر نواسیاں بالغ تھیں تو  بالغ افراد شئ موہوبہ (تحفہ میں دی گئی چیز یا رقم) کا مالک اُس وقت بنتے ہیں جب وہ اُن کے اپنے قبضہ میں دے دی جائے، اگر اُن کو قبضہ نہ دیا گیا ہو تو وہ مالک نہیں بنتے، لہذا  بالغ نواسیاں اُس کی مالک نہیں بنیں۔ اِسی طرح اگر وہ نابالغ تھیں تو نابالغ کا ولی  چونکہ اُس کا والد ہوتا ہے اس لیے والد ہی کا قبضہ بیٹیوں کا قبضہ شمار ہوتا ہے، اور جب وہ رقم والد کے حوالہ نہیں کی گئی تو نواسیاں اس رقم کی مالک نہیں بنی تھیں لہذا یہ رقم مرحومہ ہی کی ملکیت رہی، پھر اگر وہ رقم مرحومہ کے علاج میں خرچ ہو گئی تو اس کا کسی پر کوئی ضمان نہیں۔

باقی سائل کی والدہ کے ترکہ کی تقسیم کا طریقہ یہ ہو گا کہ اولاً اُن کےترکہ میں سے حقوقِ متقدمہ یعنی کفن دفن کے اخراجات ادا کیے جائیں، پھر اگر مرحومہ کے ذمہ کوئی قرضہ ہو تو اس کو ادا کرنے کے بعد اگر مرحومہ نے کوئی جائز وصیت کی ہو تو اس کو ایک  تہائی ترکہ میں سے نافذ کرنے کے بعد  مرحومہ کے کل ترکہ کو 7 حصوں میں  تقسیم کر کے دو دو حصے ہر ایک بیٹے کو (سائل کے ماں شریک بھائی سمیت)   اور ایک حصہ بیٹی کو ملے گا۔

صورتِ تقسیم یہ ہے:

مرحومہ  والدہ 7

بیٹابیٹابیٹابیٹی
2221

یعنی فیصد کے اعتبار سے 28.57 فیصد ہر ایک بیٹے کو اور 14.28 فیصد ہر ایک بیٹی کو ملے گا۔

فتاویٰ عالمگیری میں ہے:

’’لا يثبت الملك للموهوب له إلا بالقبض هو المختار، هكذا في الفصول العمادية‘‘. 

( كتاب الهبة،الباب الثانی فیما یجوز من الھبۃ وما لا یجوز 4/378 ط: رشیدیہ) 

شرح المجلۃ میں ہے:

"یملک الموھوب لہ الموھوب بالقبض ، فالقبض شرط لثبوت الملک، لا لصحۃ الھبۃ"۔

(شرح المجلۃ لسلیم رستم باز، کتاب الھبۃ، 1/473، رقم المادۃ :861،ط:حنفیہ کوئٹہ)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144304100223

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں