بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

نواسوں کو عشر دینا جائز نہیں ہے


سوال

کیا  نواسوں کو عشر کی رقم دے سکتاہوں ؟

جواب

واضح رہے کہ  اصول (والدین، دادا، دادی، نانا، نانی وغیرہ) وفروع (اولاد، اور ان کی نسل یعنی پوتا، پوتی، نواسہ، نواسی وغیرہ) کو اور اسی طرح میاں بیوی کا ایک دوسرے کو عشر  دینا جائز نہیں ہے ۔لہذاسائل کا اپنے نواسوں کو عشر دینا جائز نہیں ہے،اس   سے عشر ادا نہیں ہوگا۔

فتاوی شامی میں ہے:

"مصرف الزكاة و العشر هو فقیر، و مسکین."

و تحته في الشامي:

"و هو مصرف أیضًا لصدقة الفطر و الکفارة، و النذر و غیر ذلك من الصدقات الواجبة."

(کتاب الزکوۃ، ج: 2 ،ص:339 ، ط: سعید)

بدائع الصنائع   میں ہے : 

"ويجوز دفع الزكاة إلى من سوى الوالدين والمولودين من الأقارب ومن الإخوة والأخوات وغيرهم، لانقطاع منافع الأملاك بينهم".

(كتاب الزكوة، فصل حولان الحول هل هو من شرائط أداء الزكاة، ج:2، ص:50، ط: دارالكتب العلمية،.)

فتای شامی میں ہے :

"ولا الی من بینھما ولاد." (الدر المختار)

إلی أصله و إن علا کأبویه و أجدادہ و جداته من قبلها و فرعه و إن سفل إلخ کأولاد الأولاد ...الخ."

(باب: مصرف الزكاة والعشر،  ج:2،ص:339، ط: دارالفكر،.)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144408100758

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں