بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

نابالغ نواسی کو چھونے کا حکم


سوال

مجھ  سےچند دفع ایک غلط کام سرزد ہو چکا ہے ،جس کی تفصیلات درجِ ذیل ہیں :

1۔1993ھ میں میں اپنی بھتیجی سے گلے ملا،اس وقت اس کی عمر دس سے بارہ سال تھی ،گلے ملتے وقت میرے عضو مخصوص میں تھوڑا انتشار تھا،لیکن میرے جزبات منتشر نہیں تھے ،اور نہ ہی گلے ملنے سے زیادہ اور کسی کام کا داعیہ تھا۔

2۔2000ھ میں میں نے اپنی سالی کی بیٹی کے رخسار پر ایک دفعہ بوسہ دیا،اس وقت اس کی عمر بیس بائیس سال تھی،لیکن بوسہ لیتے وقت میرے اندر شہوت بالکل بھی نہیں تھی،اور نہ ہی کسی قسم کی شہوت کی بناء پر میں نے اس لڑکی کا بوسہ لیا تھا۔

3۔2023ھ میں نے اپنی نواسی کے ساتھ کچھ  افعال کیے ،جن کی تفصیل یہ ہے کہ :

سب سے پہلے میں نے اس کی ران پر بغیر کسی شہوت کے ہاتھ پھیرا ،پھر اس کی شرم گاہ پر ہاتھ پھیرا،پھر اس کی چھاتی پر ہاتھ پھیرا ،پھر صرف ایک مرتبہ اس کے لبوں کا بوسہ لیا،یہ تمام کام ایک منٹ کے اند رہوئے،لیکن ان تمام افعال  کرتے وقت( واللہ) میرے اندر  شہوت بالکل بھی نہیں تھی،نواسی کی عمر اس وقت آٹھ سال تھی،اور وہ قریب البلوغ تھی، پہلے واقعہ کے ایک سال تک تو میری بیوی میرے  ساتھ نہیں رہتی تھیں ،کیوں کہ ان کی رہائش الگ ملک میں تھی ،لیکن 1994 سے ہم ایک ساتھ رہ رہے ہیں ،لیکن اب تقریبا دو ماہ سے وہ میرے ساتھ نہیں رہ رہیں ،اور مذکورہ واقعہ کی وجہ سے ناراض ہے ۔

میں مذکورہ افعال ( جو مجھ سے نادانستہ طور پر سرزد ہوئے ہیں ) کی وجہ سے سخت شرمندہ ہو ں اور اللہ تعالی سے معافی مانگ چکا ہوں،میر ے بچے ،بیوی ان واقعات کی وجہ سے مجھ سے سخت ناراض اور بدظن ہیں ،اور مجھ سے ملنے کے لیے بالکل بھی تیار نہیں ہیں ۔

اب آپ سے پوچھنایہ ہے کہ :

1۔2۔3۔کیا ان مذکورہ افعال کی وجہ سے میر ے نکاح پر کوئی اثر پڑا ہے یا نہیں ؟

4۔میرے بیوی بچوں کا  مجھ سے انتہائی سخت رویہ روا رکھنا جائز ہے کہ نہیں ،اور بد تمیزی کرنا  درست ہے کہ نہیں ؟

نوٹ:دارالعلوم سے بچوں نے فون پر معلوم کیا تھا،جس کے جواب میں ان حضرات نے فرمایا کہ  مذکورہ افعال کی وجہ سے نکاح بالکل ختم ہو چکا ہے ۔

جواب

واضح رہے کہ حدیث شریف میں بیوی کے علاوہ کسی اجنبی عورت کو شہوت سے دیکھنے، چھونے، بوسہ دینےاور بات کرنے وغیرہ کو بھی مجازاً  "زنا"  کہا گیا ہے، کیوں کہ یہ افعال زنا کے اسباب اور زنا کے دواعی( زنا کی طرف لے جانے والے) ہیں، چنانچہ حدیث شریف میں ہے: "آنکھ بھی زنا کرتی ہے اور آنکھ کا زنا دیکھنا ہے، اور ہاتھ بھی زنا کرتے ہیں اور ہاتھ کا زنا پکڑنا ہے ، اور زبان کا زنا بولنا ہے، اور کان کا زنا سننا ہے، اور منہ کا زنا بوسہ دینا ہے، اور پاؤں کا زنا چلنا ہے"۔ 

1۔2:لہذا صور ت مسئولہ میں  سائل کی بھتیجی اور  سالی   کی بیٹی سائل کے اصول و فروع میں سے نہیں ہیں، اس لیے سائل کا ان کے ساتھ مذکورہ افعال  کرنے کے باوجود   ان سےحرمت ِ مصاہرت ثابت نہیں ہوگی،البتہ گناہ ضرور ہوا، لہذا اس سے توبہ استغفار کرے۔

3۔اس صورت میں نواسی چوں کہ سائل کی فروع میں آتی ہے ،لیکن چوں کہ  حرمتِ مصاہرت ثابت ہونے کے لیے لڑکی کی عمر کم سے کم نو سال ہو نا ضروری ہے ،اور  سائل کی نواسی کی عمر آٹھ سال ہے ،جو کہ شہوت کی عمر  نہیں ہے،لہذا حرمتِ مصاہرت ثابت نہیں ہو گی ،لیکن بوسہ دینا یا چھونا اپنی نامحرموں کویا محرموں کو ان مقامات پر جو انتہائی حساس مقامات ہیں چھونا اور بوسہ دینا انتہائی قبیح فعل ہے ،جس پر سائل کو چاہیے کہ اپنے مذکورہ افعال پر اللہ تعالی سے سچے دل سے توبہ استغفار کرے ،اور آئندہ کے لیے ایسے افعال سے بچنے کا عزم کرے ۔

4۔اگر واقعۃ ً  سائل نے توبہ کر لی ہے، تو سائل کے گھر والوں کا سائل کے ساتھ مذکورہ رویہ رکھنا درست نہیں ۔

قرآنِ کریم میں ہے :

" وَالْكٰظِمِيْنَ الْغَيْظَ وَالْعَافِيْنَ عَنِ النَّاسِ ۭ وَاللّٰهُ يُحِبُّ الْمُحْسِنِيْنَ."(سورةآل عمران:134)

ترجمہ:"اور غصہ کے ضبط کرنے والے ہیں اور لوگوں سے درگزر کرنے والے ہیں اوراللہ تعالی ایسے نیکو کاروں کو محبوب رکھتا ہے۔"(بیان القرآن)

مشکاۃ المصابیح میں ہے :

"وعن أبي هريرة رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «إن الله كتب على ابن آدم حظه من الزنا، أدرك ذلك لا محالة، فزنا العين النظر، وزنا اللسان المنطق، والنفس تمنى وتشتهي، والفرج يصدق ذلك، ويكذبه» ) متفق عليه."

(كتاب الأيمان ،باب الأيمان بالقدر ،ج :1 ،ص :158 ، ط: دارالفكر)

فتاوی شامی میں ہے :

"(ومن محرمه) هي من لا يحل له نكاحها أبدا بنسب أو سبب ولو بزنا (‌إلى ‌الرأس والوجه والصدر والساق والعضد إن أمن شهوته) وشهوتها أيضا.ذكره في الهدايةوإلا لا، لا إلى الظهر والبطن) خلافا للشافعي (والفخذ) وأصله قوله تعالى: * (ولا يبدين زينتهن إلا لبعولتهن) * الآية وتلك المذكورات مواضع الزينة بخلاف الظهر ونحوه،(وماحل نظره) مما مر من ذكر أو أنثى (حل لمسه) إذا أمن الشهوة على نفسه وعليها لانه عليه الصلاة والسلام كان يقبل رأس فاطمة وقال عليه الصلاة والسلام: من قبل رجل أمه فكأنما قبل عتبة الجنة وإن لم يأمن ذلك أو شك، فلا يحل له النظر والمس."

(كتاب الحظر والإباحة ،باب النظر والمس،ج:6،ص:367،ط:سعيد)

وایضاً:

"فتحصل من هذا: أنه لا بد في كل منهما من سن المراهقة وأقله للأنثى تسع وللذكر اثنا عشر؛ لأن ذلك أقل مدة يمكن فيها البلوغ كما صرحوا به في باب بلوغ الغلام، وهذا يوافق ما مر من أن العلة هي الوطء الذي يكون سببا للولد أو المس الذي يكون سببا لهذا الوطء، ولا يخفى أن غير المراهق منهما لا يتأتى منه الولد."

(رد المحتار، کتاب النکاح، فصل في المحرمات، ج:3، ص:35، ط:سعید)

فتاوی ہندیہ میں اس طرح  لکھاہے :

"(وإن ادعت الشهوة) في تقبيله أو تقبيلها ابنه (وأنكرها الرجل فهو مصدق) لا هي (إلا أن يقوم إليها منتشرا) آلته (فيعانقها) لقرينة كذبه أو يأخذ ثديها (أو يركب معها) أو يمسها على الفرج أو يقبلها على الفم قاله الحدادي.

(قوله: وإن ادعت الشهوة في تقبيله) أي ادعت الزوجة أنه قبل أحد أصولها أو فروعها بشهوة أو أن أحد أصولها أو فروعها قبله بشهوة، فهو مصدر مضاف إلى فاعله أو مفعوله وكذا قوله: أو تقبيلها ابنه، فإن كانت إضافته إلى المفعول فابنه فاعل والأنسب لنظم الكلام إضافة الأول لفاعله والثاني لمفعوله ليكون فاعل يقوم الرجل أو ابنه كما أفاده ح (قوله: فهو مضاف) لأنه ينكر ثبوت الحرمة والقول للمنكر، وهذا ذكره في الذخيرة في المس لا في التقبيل كما فعل الشارح فإنه مخالف لما مشى عليه المصنف أو لا من أنه في التقبيل يفتى بالحرمة ما لم يظهر عدم الشهوة، وقدمنا عن الذخيرة نقل الخلاف في ذلك فما هنا مبني على ما في بيوع العيون."

(كتاب النكاح ،ج :3،ص :37 ،ط:سعيد)

وایضاً:

"وما حل النظر إليه حل مسه ونظره وغمزه من غير حائل ولكن إنما يباح النظر إذا كان يأمن على نفسه الشهوة، فأما إذا كان يخاف على نفسه الشهوة فلا يحل له النظر، وكذلك المس إنما يباح له إذا أمن على نفسه وعليها الشهوة، وأما إذا خاف على نفسه أو عليها الشهوة فلا يحل المس له، ولا يحل أن ينظر إلى بطنها أو إلى ظهرها، ولا إلى جنبها، ولا يمس شيئا من ذلك، كذا في المحيط. وللابن أن يغمز بطن أمه وظهرها خدمة لها من وراء الثياب، كذا في القنيه."

قال أبو جعفر - رحمه الله تعالى - سمعت الشيخ الإمام أبا بكر محمدا - رحمه الله تعالى - يقول: لا بأس بأن يغمز الرجل الرجل إلى الساق ويكره أن يغمز الفخذ ويمسه وراء الثوب ويقول: يغمز الرجل رجل والديه، ولا يغمز فخذ والديه والفقيه أبو جعفر - رحمه الله تعالى - يبيح أن يغمز الفخذ ويمسها وراء الثوب وغيرها، كذا في الغرائب. قال محمد - رحمه الله تعالى -: ويجوز له أن يسافر بها ويخلو بها يعني بمحارمه إذا أمن على نفسه، فإن علم أنه يشتهيها أو تشتهيه إن سافر بها أو خلا بها أو كان أكبر رأيه ذلك أو شك فلا يباح له ذلك، وإن احتاج إلى حملها وإنزالها في السفر فلا بأس بأن يأخذ بطنها وظهرها من وراء الثياب، فإن خاف الشهوة على نفسه أو عليها فليجتنب بجهده وذلك بأن يجتنب أصلا متى أمكنها الركوب والنزول بنفسها، وإن لم يمكنها ذلك تكلف المحرم في ذلك زيادة تكلف بالثياب حتى لا يصل إليه حرارة بدنها، وإن لم يمكنه ذلك تكلف المحرم لدفع الشهوة عن قلبه يعني لا يقصد بها فعل قضاء الشهوة، كذا في الذخيرة............... وكان محمد بن مقاتل الرازي - رحمه الله تعالى - يقول: لا ينظر إلى ما بين سرتها إلى ركبتها."

(كتاب الكراهية،با ب مايحل للرجل النظر اليه ومالايحل،ج:5،ص:328،ط:دارالفكر)

فتاوی شامی میں ہے:

"فلو جامع صغيرة لا تشتهى لا تثبت الحرمة، كذا في البحر الرائق. ولو كبرت المرأة حتى خرجت عن حد المشتهاة يوجب الحرمة؛ لأنها دخلت تحت الحرمة فلم تخرج بالكبر ولا كذلك الصغيرة، كذا في التبيين."

(کتاب النکاح ،باب فی بیان المحرمات، (1 /275) ط:رشیدیه)

مرقاۃ المفاتیح  میں ہے:

"قال الخطابي: رخص للمسلم أن يغضب علي أخيه ثلاث ليال لقلته، و لا يجوز فوقها إلا إذا كان الهجران في حق من حقوق الله تعالي، فيجوز فوق ذلك ، و في حاشية السيوطي علي المؤطا: قال ابن عبدالبر: هذا مخصوص بحديث كعب بن مالك و رفيقيه حيث أمر صلي الله عليه و سلم أصحابه بهجرهم، يعني زيادة علي ثلاث إلي أن بلغ خمسين يوما…قال:وأجمع العلماءعلى أن من خاف من مكالمة أحد و صلته ما يفسد عليه دينه أو يدخل مضرة في دنياه يجوزله مجانبته و بعده۔۔۔ قلت:ويمكن أن يقال:الهجرة الممنوعة إنما تكون مع العداوة و الشحناء كما يدل عليه الحديث الذي يليه،فغيرها إما مباح أو خلاف الأولى."

(  کتاب الآداب، ج:8، ص :758، ط: المکتبۃ التجاریة)

سبل السلام شرح بلوغ المرام میں ہے :

"(وعن معاذ بن جبل - رضي الله عنه - قال: قال رسول الله - صلى الله عليه وسلم -: «من عير أخاه بذنب من عابه به لم يمت حتى يعمله» أخرجه الترمذي وحسنه وسنده منقطع) كأنه حسنه الترمذي لشواهده فلا يضره انقطاعه. وكأن من عير أخاه أي عابه من العار، وهو كل شيء لزم به عيب كما في القاموس يجازى بسلب التوفيق حتى يرتكب ما عير أخاه به وذاك إذا صحبه إعجابه بنفسه بسلامته مما عير به أخاه.وفيه أن ذكر الذنب لمجردالتعيير قبيح يوجب العقوبة وأنه لا يذكر عيب الغير إلا للأمور الستة التي سلفت مع حسن القصد فيها."

(كتاب الجامع،باب الترهيب من مساوئ الأخلاق ،ج:4،ص:682،دارابن جوزي للنشر والتوزيع)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144410100226

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں