بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 جمادى الاخرى 1446ھ 13 دسمبر 2024 ء

دارالافتاء

 

بھائی کی موجودگی میں نواسی کا وراثت میں حصہ


سوال

ایک شخص کی صرف ایک ہی بیٹی تھی ، جو شادی کے بعد ایک ہی بیٹی پیدا کرکے  1928ء میں فوت ہو گئی۔ وہ شخص  1955ء میں فوت ہوا تو اس کے ورثا میں صرف اس کا ایک بھائی زندہ تھا ، کیا ساری وراثت بھائی کو جاۓ گی یا نواسی یعنی daughter of deceased daughter مرحومہ بیٹی کی بیٹی اپنے نانا کی وراثت میں حصہ دار ہو سکتی ہے؟ اسلامی اور پاکستانی قانون کا حوالہ دیجیے۔

جواب

مذکورہ صورت میں چوں کہ مرحوم  کے انتقال کے وقت اس کا ایک بھائی زندہ  تھا لہذا مرحوم کی نواسی کو مرحوم کی جائیداد میں بطورِ میراث حصہ نہیں ملے گا، البتہ میراث  کی تقسیم کے وقت مرحوم کا بھائی اپنی مرضی اور خوشی سے اپنے مرحوم بھائی کی نواسی کو  کچھ دینا چاہے تو شرعاً یہ پسندیدہ  اور باعثِ ثواب ہے، سورہ نساء میں ہے:

﴿ وَاِذَا حَضَرَ الْقِسْمَةَ اُولُو الْقُرْبٰی وَالْیَتٰمٰی وَالْمَسٰکِیْنُ فَارْزُقُوْهُمْ مِّنْهُ وَقُوْلُوْا لَهُمْ قَوْلاً مَّعْرُوْفاً ﴾  [النساء:8]

ترجمہ: اور جب میراث کی تقسیم کے وقت (وہ) قریبی رشتہ دار (جن کا میراث میں شرعی حصہ مقرر نہیں ہو) اور یتیم اور مساکین حاضر ہوں تو انہیں ترکے میں سے کچھ بطورِ رزق دے دو اور ان سے اچھی بات کہو۔

الأقرب فالأقرب یرجحون بقرب الدرجۃ أعني أولاہم بالمیراث جزء المیت أي البنون ثم بنوہم۔

(السراجي في المیراث ص: ۲۲) فقط و الله أعلم


فتوی نمبر : 144112200247

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں