بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

نواسے کا خیال رکھنے کے لیے نانی کا عدت میں گھر سے نکلنا


سوال

میرے سسر صاحب کا انتقال ہوگیا ہے،  ساس صاحبہ عدت میں ہیں۔  عدت  10جون  2021کو ختم ہوگی ۔ہماری بیٹی کی شادی  3، اپریل کو ہے ۔ہمارے ایک بیٹے اور  ہیں جو معذور  ہیں ۔عمر اس کی پندرہ  سال ہے،  اس کی تمام خدمات اس کی والدہ کرتی  ہیں، یہاں تک کہ کھانا بھی اسے کھلانا پڑتا ہے ۔ہمیں یہ پوچھنا ہے کہ شادی  کے دن ان کی نانی کو ہم گھر بولا کر اس بچہ کے پاس چھوڑ سکتے ہیں؟ہماری رہائش سندھی مسلم میں ہے اور ساس گلشن میں رہتی ہیں!

جواب

صورتِ  مسئولہ میں بچے  کو  ساس کے پاس چھوڑ دیا جائے،  ساس کو اپنے گھر نہ بلایا جائے؛ کیوں کہ عدت ختم ہونے سے پہلے  ساس کو  گھر سے نکلنے کی اجازت نہیں ہوگی۔

فتاوی شامی میں ہے:

«ومعتدة موت تخرج في الجديدين وتبيت) أكثر الليل (في منزلها) لأن نفقتها عليها فتحتاج للخروج، حتى لو كان عندها كفايتها صارت كالمطلقة فلا يحل لها الخروج فتح. وجوز»

قال في الفتح: والحاصل أن مدار حل خروجها بسبب قيام شغل المعيشة فيتقدر بقدره، فمتى انقضت حاجتها لا يحل لها بعد ذلك صرف الزمان خارج بيتها. اهـ. وبهذا اندفع قول البحر إن الظاهر من كلامهم جواز خروج المعتدة عن وفاة نهارا ولو كان عندها نفقة، وإلا لقالوا: لا تخرج المعتدة عن طلاق، أو موت إلا لضرورة فإن المطلقة تخرج للضرورة ليلا، أو نهارا اهـ.

ووجه الدفع أن معتدة الموت لما كانت في العادة محتاجة إلى الخروج لأجل أن تكتسب للنفقة قالوا: إنها تخرج في النهار وبعض الليل، بخلاف المطلقة. وأما الخروج للضرورة فلا فرق فيه بينهما كما نصوا عليه فيما يأتي، فالمراد به هنا غير الضرورة، ولهذا بعدما أطلق في كافي الحاكم منع خروج المطلقة قال: والمتوفى عنها زوجها تخرج بالنهار لحاجتها ولا تبيت في غير منزلها، فهذا صريح في الفرق بينهما، نعم عبارة المتون يوهم ظاهرها ما قاله في البحر، فلو قيدوا خروجها بالحاجة كما فعل في الكافي لكان أظهر."

(کتاب الطلاق، باب العدت،  ج نمبر ۳ ص نمبر ۵۳۶،ایچ ایم سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144208200363

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں