بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کیا نواسے نواسیوں کا میراث میں حق ہے؟


سوال

میری شادی 2004ء میں میرے والدین کی پسند پر میری ماموں زاد بہن سے ہوئی ۔مرحومہ 2015ء جنوری تک میری حق زوجیت میں رہیں۔

اس دوران مرحومہ کے بطن سے سائل کے دو فرزندان 2009ءاور2012ء میں بالترتیب تولد ہوئے۔

سائل نے اپنی بیوی سے باہمی صلاح ومشورہ کرکے بیوی کے دونوں خاندانوں سے حاصل شدہ سونے کے زیورات کو فروخت کرکے آدھا کنال اراضی حاصل خریدی تھی۔سائل کو 2010 میں بحثیت سرکاری ملازم محکمہ نے بغیر تنخواہ کے وٹرنری کالج میں 5سال کے لیے  ڈاکٹری کی ڈگری حاصل کرنے کے  لیے بھیجا۔مگر  بد قسمتی سے 2013ء میں ہی سائل کی شریک حیات کو انتڑیوں کا کینسر نمودار ہوا۔B.v.sc  چوں کہ سائل اس دوران بغیر تنخواہ کالج میں کی ڈگری کررہا تھا؛ اس لیے سائل نے اپنی بیوی سے مشورہ کرکے بیوی کا آدھا کنال اور اپنا آدھا کنال یعنی  کل ایک کنال اراضی فروخت کی اور اپنی بیوی کو دہلی کے ایک بڑے پرائیوٹ ہسپتال میں علاج کے  لیے بھرتی کیا۔اور ڈیڑھ سال کے عرصے میں اللہ کے فضل سے میری زوجہ محترمہ دو سرجریوں کے بعد اس مرض کینسر سے مبرا  ہوئی  اور دونوں خاندان مطمئن اور خوش ہوئے۔

جنوری 2015ء کوسائل کی بیوی اپنے باپ کی دعوت پر میکے چلی گئی اور وہاں چند دن قیام کے  لیے رک گئی۔کچھ دن کے بعد اچانک اس کو وھاں پر سٹروک ہوا  اور  سسرال والوں نے فوراً بلایا اور  سائل نے جلدی اپنی بیوی کو ہسپتال میں بھرتی کرایا ۔بالآخر میری بیوی اس دنیا سے انتقال کرکے مالک حقیقی سے جا ملی۔

اب  چوں کہ متوفیہ کے دو فرزندان دنیا میں موجود ہیں استدعا ہے کہ قرآن اور حدیث کی روشنی میں ایک فتویٰ صادر فرمایا جائے کہ کیا یہ متوفیہ کے فرزندان اپنے نانا  اور نانی کی وراثت سے کوئی  جائز حق حاصل کرسکتے ہیں؟  یا ماں کے مرجانے کے بعد یہ دونوں بچے نانا  اور نانی کی وراثت سے محروم ہوگئے ہیں؟

سائل کے سسر کے ملکیت میں 1کنال 7 مرلے اور ایک مکان بقیمت  60لاکھ  روپے اور  8 دوکانیں اور 5 مرلہ شاملات اراضی موجود ہیں۔جب کہ میری ساس کی ملکیت میں 18 مرلےاراضی موجود ہے۔

ان کی اولاد میں ایک بیٹا ہے  اور ایک بیٹی جو سائل کی زوجیت میں 2015ء تک تھی۔

(سائل کی بیوی پر بیماری میں علاج معالجہ پر جوکثیر رقم خرچ ہواوہ سائل نے خود کیا اس میں کسی نے مدد نہ کی۔)

جواب

واضح رہے کہ وراثت انسان کے مرنے کے بعد اس کے مال میں جاری ہوتی ہے، صورتِ  مسئولہ میں  سائل کے  ساس سسر  چوں کہ تاحال بقیدِ  حیات ہیں،  اور ان کی صاحبزادی ( سائل کی مرحومہ اہلیہ )  کی وفات ان کی حیات میں ہی  ہوئی ہے، لہذا ساس سسر کی وفات کے بعد ان کے بیٹے کی حیات  کی صورت میں سائل کے بچوں کا اپنے نانا اور نانی کے ترکے میں کوئی حصہ نہ ہوگا، البتہ نانا نانی اپنی زندگی میں   اگر انہیں کچھ دینا چاہیں تو دے سکتے ہیں  وہ ان کی طرف سے تحفہ ہوگا، اسی طرح سے اگر وہ اپنے نواسے نواسی کے حق میں وصیت کرنا چاہیں تو ایک تہائی ترکہ تک کی وصیت کر سکتے ہیں۔  فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144211201712

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں