بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

نوافل کی جماعت کا حکم


سوال

مفتی انعام الحق صاحب کی کتاب ’’نماز کے مسائل کا انسائیکلوپیڈیا‘‘ جلد  2 صفحہ 84 عنوان: جماعت کے بعد جماعت۔ اس عنوان کے اول مسئلہ کو واضح تحریر کرکے مجھے ارسال کریں،  یہ صورت میں نہیں سمجھا ہوں!

جواب

مذکورہ عنوان کے تحت مفتی انعام الحق صاحب نے لکھا ہے:

’’اگر کچھ لوگوں نے کوئی فرض نما زجماعت سے ادا کرلی، پھر ان لوگوں نے اسی نماز کو جماعت کے ساتھ دوبارہ ادا کیا، اور دوسری جماعت میں تین سے زیادہ آدمی تھے، تو یہ فعل مکروہ ہے، ہاں اگر تین افراد سے کم تھے تو  مکروہ نہیں  ہے ۔۔۔ الخ‘‘

اس عبارت میں جس مسئلے  کا ذکر ہے اس کا تعلق نوافل کی جماعت سے ہے   کہ جب چند لوگوں نے فرض نماز باجماعت ادا کرلی تو فرض ادا ہوگیا ، اب اگر یہ لوگ اسی نماز کو دوبارہ جماعت سے پڑھیں گے تو  یہ نماز نفل کہلائے گی ، اور نوافل  کی جماعت کے بارے میں تفصیل یہ ہے کہ  امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک سوج گرہن کے وقت صلاۃ الکسوف، صلاۃ الاستسقاء اور تراویح کے علاوہ کسی بھی نفل نماز کی جماعت کے ساتھ ادائیگی جب کہ مقتدی چار یا چار سے زیادہ ہوں مکروہ ہے، تین افراد کی جماعت میں نوافل کی ادائیگی کے مکروہ ہونے نا ہونے میں اختلاف ہے، جب کہ دو افراد کا جماعت کے ساتھ نوافل ادا کرنا جائز ہے، حاصل یہ ہواکہ چار یا چار سے زیادہ مقتدی ہونے کی صورت میں نفل نماز  کی باجماعت ادائیگی مکروہ ہے۔

البحر الرائق شرح كنز الدقائق ـ مشكول - (3 / 382):

"و أصل هذا أن التطوع بالجماعة إذا كان على سبيل التداعي يكره."

الدر المختار شرح تنوير الأبصار في فقه مذهب الإمام أبي حنيفة - (1 / 552):

"(و الجماعة سنة مؤكدة للرجال ) قال الزاهدي أرادوا بالتأكيد الوجوب إلا في جمعة و عيد فشرط و في التراويح سنة كفاية و في وتر رمضان مستحبة على قول وفي وتر غيره و تطوع على سبيل التداعي مكروهة و سنحققه ويكره تكرار الجماعة بأذان وإقامة في مسجد محلة لا في مسجد طريق أو مسجد لا إمام له ولا مؤذن."

الدر المختار شرح تنوير الأبصار في فقه مذهب الإمام أبي حنيفة - (2 / 49):

"على سبيل التداعي بأن يقتدي أربعة بواحد كما في الدرر ولا خلاف في صحة الاقتداء إذ لا مانع  نهر."

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144108200796

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں