بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

14 شوال 1445ھ 23 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

نوافل بیٹھ کر پڑھنا افضل ہے یا کھڑے ہوکر؟


سوال

 نفل نماز بیٹھ کر پڑھنا افضل ہے یا کھڑے ہوکر ؟براہ کرم بالتفصیل بتائیں۔

جواب

نوافل کو کھڑے ہوکر پڑھنا اور بیٹھ کر پڑھنا دونوں درست ہے، لیکن بغیر عذر کے بیٹھ کر نفل پڑھنے کی بجائے  کھڑے ہوکر پڑھنے میں دوگنا ثواب ہے، یعنی  جتنا  ثواب کھڑے ہو کرنوافل  پڑھنے والے کو ملتا  ہے ،  بیٹھ کر پڑھنے والے کو اس کا آدھا ثواب ملتا ہے۔

  نبی کریم ﷺ  نے وتر کے بعد  دو رکعت نفل نماز  بیٹھ کر ادا کی ہے، لیکن آپ ﷺ کو بیٹھ کر پڑھنے میں پورا ثواب ملتا تھا اور امتی کو آدھا ثواب ملتا ہے، یہ آپ ﷺ کی خصوصیات میں سے تھا، حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی کی  روایت میں ہے کہ  حضور اقدس ﷺ نے فرمایا کہ  کھڑے ہوکر نفل پڑھنے میں دوگنا ثواب ملتا ہے، پھر حضورﷺ  کو دیکھا گیا  کہ وتر کے بعد نفل نماز بیٹھ کر ادا کرتے ہیں تو  آپ سے یہ دریافت کیا گیا ، جس پر آپ نے ارشاد فرمایا ، ایسا ہی ہے، ( یعنی کھڑے ہوکر پڑھنے میں دوگنا ثواب ملتا ہے)، لیکن میں تمہاری طرح نہیں ہوں (مجھےپورا ثواب ملتا ہے، کم نہیں ملتا)۔

لہذا کسی بھی قسم کی نفل نماز  کھڑے ہو کر اور بیٹھ کر دونوں طرح پڑھنا جائز ہے، لیکن بلاعذر بیٹھ کر پڑھنے میں کھڑے ہوکر پڑھنے کی بہ نسبت آدھا ثواب ملے گا۔

مشکوہ المصابیح میں ہے:

"وعن عمران بن حصين: أنه سأل النبي صلى الله عليه وسلم عن صلاة الرجل قاعداً؟ قال: «إن صلى قائماً فهو أفضل، ومن صلى قاعداً فله نصف أجر القائم، ومن صلى نائماً فله نصف أجر القاعد» . رواه البخاري".

(كتاب الصلاة، باب القصد في العمل، جلد1 ص: 392 ط: المکتب الإسلامي بیروت)

وفیه أیضا:

"عن عبد الله بن عمرو قال: حدثت أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: «صلاة الرجل قاعداً نصف الصلاة» قال: فأتيته فوجدته يصلي جالساً فوضعت يدي على رأسه فقال: «مالك يا عبد الله بن عمرو؟» قلت: حدثت يا رسول الله أنك قلت: «صلاة الرجل قاعداً على نصف الصلاة» وأنت تصلي قاعداً قال: «أجل ولكني لست كأحد منكم» . رواه مسلم".

(كتاب الصلاة، باب القصد في العمل، جلد1 ص: 393 ط: المکتب الإسلامي بیروت)

حاشية الطحطاوي میں ہے:

"قوله: ”ولكن له نصف أجر القائم“، يستثنى منه صاحب الشرع صلى الله عليه وسلم، كما ورد عنه صلى الله عليه وسلم فإن أجر صلاته قاعداً كأجر صلاته قائماً فهو من خصوصياته".

(جلد 1 ص: 403 ط: دار الکتب العلمیة بیروت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144308101706

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں