میں دبئی میں رہتاہوں ، یہاں اذانِ مغرب اور نماز کے درمیان سات یا دس منٹ کافاصلہ حکومت کی طرف سے متعین ہے ۔اس لیے ہم تعجیل نہیں کرسکتے، دورکعت نماز پڑھنے کاوقت موجود ہے ہم پڑھیں یا نہ پڑھیں۔ توکیا ایسی صورت میں ان احادیث کو سامنے رکھتے ہوئے جن میں دورکعت پڑھنے کاثبوت ہے ہم کودبئی جیسی جگہ میں دورکعت پڑھنا افضل ہے ، یا جائز ہے ، یا مکروہ ہے۔
فقہائے حنفیہ کے نزدیک مغرب کی فرض نماز سے قبل نوافل پڑھنا مکروہ ہے۔ اگر کسی مقام پر مغرب کی اذان و نماز کے درمیان دو تین منٹ یا زیادہ تاخیر ہوتی ہو، تب بھی حنفی مقلد کے لیے وہاں نوافل پڑھنا مکروہ ہوگا۔البتہ ایسی صورت میں یہ وقت ذکرواذکار اور تلاوت میں صرف کیا جائے ۔
فتاوی شامی میں ہے :
’’(و) تعجیل (مغرب مطلقًا) وتاخیرہٗ قدرَ رکعتین یکرہ تنزیہاً۔ وفی الرد: (قولہ: یکرہ تنزیہاً) أفاد أن المراد بالتعجیل أن لایفصل بین الأذان والإقامۃ بغیر جلسۃ أو سکتۃ علی الخلاف، وأن ما فی القنیۃ من استثناء التاخیر القلیل محمول علٰی ما دون الرکعتین، وأن الزائد علی القلیل إلی اشتباک النجوم مکروہ تنزیہاً، وما بعدہٗ تحریماً إلا بعذر، قال فی شرح المنیۃ: والذی اقتضتہ الأخبارُ کراہۃَ التاخیر إلی ظہور النجم، وما قبلہٗ مسکوت عنہ، فہو علی الإباحۃ وإن کان المستحبُ التعجیلَ.‘‘
(کتاب الصلاۃ، مطلب: فی طلوع الشمس من مغربہا، ج:1، ص:361-370،ط: سعید)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144410101750
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن