بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

7 شوال 1445ھ 16 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

نومولود کے بال سمندر/ دریا/ ندی میں بہانا


سوال

کیا نومولود بچے کے بال کاٹ کر سمندر/ دریا/ ندی میں بہانا ضروری ہے؟ اگر نہیں تو پھر کیا کیا جاۓ؟

جواب

انسان کے جسم سے کاٹے گئے یا جدا ہونے والے بال، ناخن یا دیگر حصوں کے بارے میں حکم یہ ہے کہ انہیں دفن کیا جائے، لہٰذا نومولود کے بالوں کے بارے میں بھی مستحب یہ ہے کہ اس کے بالوں کو دفن کردیا جائے، بچے یا بڑے کے بال سمندر، دریا یا ندی میں ڈالنا سنت سے ثابت نہیں ہے۔

معجم كبير ميں ہے:

"عن عبد الجبار بن وائل، عن أبيه: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم: «كان يأمر بدفن الشعر، والأظفار»".

(أخرجه الطبراني  في الكبير (22/ 32) برقم (73)،ط.مكتبة ابن تيمية - القاهرة)

مصنف ابن ابی شیبہ میں ہے:

"عن رجل من بني هاشم: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم أمر بدفن الشعر والظفر والدم".

(أخرجه ابن أبي شیبة في ما يؤمر به الرجل إذا احتجم، أو أخذ من شعره، أو قلم أظفاره (5/ 241) برقم (25661)،ط.مكتبة الرشد - الرياض، الطبعة الأولى ، 1409)

عمدة القاری میں ہے:

"النوع السادس: أن فيه أنه لا بأس باقتناء الشعر البائن من الحي وحفظه عنده، وأنه لايجب دفنه، كما قال بعضهم: إنه يجب دفن شعور بني آدم، أو يستحب، وذكر الرافعي في سنن الحلق، فقال: وإذا حلق فالمستحب أن يبدأ بالشق الأيمن ثم بالأيسر، وأن يكون مستقبل القبلة، وإنما يكبر بعد الفراغ، وأن يدفن شعره".

(عمدة القاري: باب الحلق والتقصير (10/ 63)،ط.  دار إحياء التراث العربي - بيروت)

حاشیة الطحطاوی علی مراقی الفلاح میں ہے:

"وفي الخانية: ينبغي أن يدفن قلامة ظفره ومحلوق شعره وإن رماه فلا بأس، وكره إلقاؤه في كنيف أو مغتسل؛ لأن ذلك يورث داءً".

(كتاب الصلاة، باب الجمعة (1/ 257)،ط. دار الكتب العلمية بيروت، الطبعة الأولى: 1418هـ - 1997م)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144202201126

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں