بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

نعوذ باللہ میں خدا کے وجود کا انکار کرتا ہو ایسے الفاظ زبان سے ادا کرنے کا حکم


سوال

میں نے غصہ میں کہہ دیا میری کوئی دعا قبول نہیں ہوتی ،اور نعوذ باللہ میں خدا کے وجود کا انکار کرتا ہوں ،مجھے اب یہ یاد نہیں یہ میں نے زبان سے ادا کیے یا دل میں کہے مگر ان کفریہ الفاظ سے میں بہت پریشان ہو کہیں میں کفر کا مرتکب نہ ہو گیا ہوں اور میرے زندگی بھر کے اعمال ضائع نہ ہو گئے ہو برائے مہربانی میری اس سلسلے میں رہنمائی فرمائیں۔

جواب

واضح رہےکہ  اگر کوئی  شخص نعوذ باللہ ''میں خدا کے وجود کا انکار کرتا ہو ''ایسے الفاظ زبان سے ادا کریں ، یعنی کلمہ  کفرکہہ دے، توایساانسان دائرۂ  اسلام سے خارج ہوجاتا ہے، خواہ وہ کلمات اعلانیہ   طورپر کہےہو  یا غیراعلانیہ کہے ہواور اس سے توبہ  کرنے  ضروری ہے ، اور اگر ایسا کہنے والا  شادی شدہ  ہو تو اس کا نکاح ختم ہوجاتاہے  اور   اس کے ذمہ  لازم ہوتاہے کہ فورًا  اپنے اسلام اورنکاح کی تجدید کرے،  لیکن اگر زبان سے ادا نہیں کیا بلکہ صرف دل میں خیال آیا تو یہ شیطان کی طرف سے وسوسہ ہے ، اس سے انسان دائرۂ  اسلام سے خارج  نہیں ہوتا،باقی   جو شخص بھی دعا کرتا ہے تو اس کی قبولیت کی  تین صورتیں ہوتی ہیں: حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں رسول اللہ ﷺ کا  ارشاد ہے کہ جو بندہ اللہ تعا لی سے کوئی دعا کرتا ہے جس میں نہ  گناہ  ہو نہ  رشتے ناطے ٹوٹتے ہو ں اسے اللہ تعا لی تین باتوں میں سے ایک ضرور عطا فرماتا ہے، یا تو اس کی دعا اس وقت قبول فرما کر بعینہ وہی  چیز مل جاتی ہے یعنی وہ مراد پوری کردی جاتی ہے جس کی اس نے دعا مانگی ہوتی ہے  ،یا اسے آخرت کے لئے  ذخیرہ کر کے  چھوڑ دیتا ہے اور آخرت میں عطا کی جا ئیگی ، یا اس کی وجہ سے کوئی آنے والی مصیبت کو  ٹال دیتا ہے،صحابہ کرام نے یہ سن کر عرض کیا   پھر تو ہم بکثرت دعا مانگا کریں گے آپ نے فرمایا اللہ اس سے زیادہ عطا فرمادےگا۔

مسند الإمام أحمد بن حنبل میں ہے:

"عن أبي سعيد، أن النبي صلى الله عليه وسلم قال: " ما من مسلم يدعو بدعوة ليس فيها إثم، ولا قطيعة رحم، إلا أعطاه الله بها إحدى ثلاث: إما أن تعجل له دعوته، وإما أن يدخرها له في الآخرة، وإما أن يصرف عنه من السوء مثلها " قالوا: إذا نكثر، قال: " الله أكثر."

(ج:17،ص:213،رقم : 11133،ط:مؤسسة الرسالة)

فتاوی شامی میں ہے :

"(وإسلامه أن يتبرأ عن الأديان) سوى الإسلام (أو عما انتقل إليه) بعد نطقه بالشهادتين، وتمامه في الفتح؛ ولو أتى بهما على وجه العادة لم ينفعه ما لم يتبرأ بزازية."

(کتاب الجہاد ،باب المرتد،226/4ط سعید)

وفیہ ایضاّ:

"أن ما يكون كفرا اتفاقا يبطل العمل والنكاح، وما فيه خلاف يؤمر بالاستغفار والتوبة وتجديد النكاح وظاهره أنه أمر احتياط."

(کتاب الجہاد،باب المرتد،230/4 ط:سعید)

وفيه ايضا:

"(وشرائط صحتها العقل) والصحو (والطوع) فلا تصح ردة مجنون، ومعتوه وموسوس، وصبي لايعقل وسكران ومكره عليها، وأما البلوغ والذكورة فليسا بشرط بدائع".

قال ابن عابدین رحمه الله:" قال في البحر والحاصل: أن من تكلم بكلمة للكفر هازلاً أو لاعبًا كفر عند الكل ولا اعتبار باعتقاده، كما صرح به في الخانية. ومن تكلم بها مخطئًا أو مكرهًا لايكفر عند الكل، ومن تكلم بها عامدًا عالمًا كفر عند الكل، ومن تكلم بها اختيارًا جاهلاً بأنها كفر ففيه اختلاف. اهـ."

(باب المرتد، 224/4، ط: سعيد)

فقط و اللہ اعلم


فتوی نمبر : 144411101355

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں