بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1445ھ 30 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

نیٹ ورک مارکیٹنگ کا حکم


سوال

نیٹ ورک مارکیٹنگ میں سے ایک کام ٹیم ورک کا ہے، جس میں آپ نئے چار بندوں کو جوائن کروائیں گے تو آپ کو کمپنی میں ترقی مل جاتی ہے، نیز یہ بتانا بھی مقصود ہے جو بھی نیا بندہ کمپنی کو جوائن کرے گا، وہ سترہ سو روپے ٹریننگ چارجز کے نام سے وصول کرتی ہے؟

جواب

ہماری معلومات کے مطابق   نیٹ ورک مارکیٹنگ(Network Marketing)میں بہت سےمفاسد پائے جاتے ہیں، لہذا ان مفاسد کی وجہ سے ان سے منسلک ہونا  ناجائز ہے۔

  چند ایک کا یہاں ذکر کیا جاتا ہے:

اس میں مصنوعات  بیچنا اصل مقصد نہیں ہے، بلکہ ممبر سازی کے ذریعے  کمیشن در کمیشن کاروبار چلانا  اصل مقصد ہے جو  کہ جوئے کی ایک نئی شکل ہے۔

 اس کی تفصیل یہ ہے کہ جیسے جوئے میں پیسے لگاکر  یہ امکان بھی ہوتا ہے کہ اسے کچھ نہ ملے اور یہ امکان بھی ہوتا ہے کہ اسے بہت سارے پیسے مل جائیں، اسی  طرح مذکورہ کمپنی سے منسلک ہونے کے بعد کام کرنے میں یہ امکان بھی ہے کہ نیٹ ورک کمپنی  کو کچھ نہ ملے (انفرادی طور پر مطلوبہ پوائنٹس تک نہ پہنچنے کی وجہ سے) اور یہ امکان بھی ہے کہ اسے بہت سے پوائنٹس مل جائیں،(انفرادی طور پر اور ٹیم کی شکل میں مطلوبہ پوائنٹس تک پہنچنے کی وجہ سے)نیز شرعی طور پر دلال (ایجنٹ) کو اپنی دلالی کی اجرت (کمیشن) ملتی ہے جو کہ کسی اور کی محنت کے ساتھ مشروط نہیں ہوتی، لیکن مذکورہ کمپنی کے ممبر کی اجرت چین بنانے کی صورت میں دوسرے  ما تحت ممبران کی محنت پر مشروط ہوتی ہے جو کہ  شرعاً درست نہیں،       لہذا نیٹ ورک مارکیٹنگ کے ساتھ منسلک ہونا اور دوسروں کو اس میں شامل کراکے کمیشن وصول کرنا، ناجائز ہے۔

البنایہ شرح الہدایۃ میں ہے :

"وقد نهى النبي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عن بيع الملامسة والمنابذة. ولأن فيه تعليقًا بالخطر".

شرح

م: (تعليقًا) ش: أيتعليق التمليكم: (بالخطر) ش: وفي " المغرب "، الخطر: الإشراف على الهلاك، قالت الشراح: وفيه معنى القمار؛ لأن التمليك لايحتمل التعليق لإفضائه إلى معنى القمار".

(کتاب البیوع ،باب البیع الفاسد،ج:8،ص:158،دارالکتب العلمیۃ)

فتاوی ہندیۃ  میں ہے:

"‌ومنها ‌في ‌البدلين وهو قيام المالية حتى لا ينعقد متى عدمت المالية هكذا في محيط السرخسي ومنها في المبيع وهو أن يكون موجودا فلا ينعقد بيع المعدوم وما له خطر العدم كبيع نتاج النتاج والحمل كذا في البدائع وأن يكون مملوكا في نفسه وأن يكون ملك البائع." 

 (كتاب البيوع ، الباب الأول في تعريف البيع وركنه وشرطه وحكمه وأنواعه، ج: 3 ص: 2 ط: رشیدية)

کشف الأسرار للبزودی میں ہے:

"لأن المعاوضات المحضة لا تحتمل التعليق بالخطر، لما فيه من معنى القمار.''

 (باب حروف الحروف، معنى على، ج:2 ص: 173 ط: دار الكتاب الإسلامی)

الموسوعة الفقہیة  میں ہے :

"وقال المحلي: صورة القمار المحرم التردد بين أن يغنم وأن يغرم."

 (حرف الميم، ميسر، التعريف، ج:39 ص: 404 ط: وزارة الاوقاف والشؤن الاسلامیة)

فتاوی شامی میں ہے:

" قال في البزازية: إجارة السمسار والمنادي والحمامي والصكاك وما لايقدر فيه الوقت ولا العمل تجوز؛ لما كان للناس به حاجة، ويطيب الأجر المأخوذ لو قدر أجر المثل، وذكر أصلاً يستخرج منه كثير من المسائل، فراجعه في نوع المتفرقات والأجرة على المعاصي."

(کتاب الإجارة، باب الإجارة الفاسدة، ج:6، ص:47، ط: سعيد)

وفيه أيضا:

"مطلب في أجرة الدلال ، قال في التتارخانية : وفي الدلال والسمسار يجب أجر المثل ، وما تواضعوا عليه أن في كل عشرة دنانير كذا فذاك حرام عليهم. وفي الحاوي : سئل محمد بن سلمة عن أجرة السمسار ، فقال : أرجو أنه لا بأس به وإن كان في الأصل فاسداً؛ لكثرة التعامل وكثير من هذا غير جائز ، فجوزوه لحاجة الناس إليه كدخول الحمام."

(كتاب الإجارة،مطلب في أجرة الدلال،ج:6، ص:63،ط: سعيد)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144508101645

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں