بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

7 شوال 1445ھ 16 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

نعت پڑھنا کیسا ہے؟


سوال

نعت گانےکے طرز پر نہ ہو تو اس کا پڑھنا کیسا ہے؟

جواب

 نعت   ( یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم   کی تعریف کرنا ،ان کے اوصاف حمیدہ کا بیان کرنا ،حسن وجمال بیان کرنا یاآپ سے محبت وعقیدت کا اظہار کرنا )  جائز طریقہ سے  (یعنی جس کا مضمون خلاف شرع نہ ہو، اس میں غلو بھی نہ ہو، اور موسیقی کے طرز پر بھی نہ ہو) پڑھنا نہ صرف ایک جا ئز عمل ہے،  بلکہ کارِ  ثواب  اور   سرمایہ آخرت  بھی ہے   اور نعت  کو گانوں کے طرز پر پڑھنا اور  اس  کے  ساتھ ساز  اور  موسیقی کو شامل کرنا  تعلیماتِ نبویہ  صلی اللہ علیہ وسلم سے سراسر انحراف ہونے کے ساتھ ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں بھی ایک طرح سے گستاخی ہے  ، قرآن مجید جیسی عظیم عبادت کو گانے کی طرز پر پڑھنے والوں سے متعلق حدیث شریف میں ہے:

"حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے  کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تم قرآنِ کریم اہلِ عرب کی طرح اور ان کی آوازوں کے مطابق پڑھو،  اہلِ عشق اور اہلِ کتاب کے طریق کے مطابق پڑھنے سے بچو ، میرے بعد ایک جماعت پیدا ہو گی جس کے افراد راگ اور نوحہ کی طرح آواز بنا کر قرآن پڑھیں گے، ان کا حال یہ ہو گا کہ قرآن ان کے حلق سے آگے نہیں بڑھے گا (یعنی نہ ہی  ان کا پڑھنا قبول ہوگا اور نہ  ہی  ان کو پڑھنے پر ثواب ملےگا) نیز ان کی قراءت سن کر خوش ہونے والوں کے قلوب فتنہ میں مبتلا ہوں گے۔"

مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح میں ہے:

"وعن حذيفة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: (اقرءوا القرآن بلحون العرب وأصواتها) عطف تفسيري، أي: بلا تكلف النغمات من المدات والسكنات في الحركات والسكنات بحكم الطبيعة الساذجة عن التكلفات (وإياكم ولحون أهل العشق) : أي: أصحاب الفسق (ولحون أهل الكتابين) ، أي: أرباب الكفر من اليهود والنصارى فإن من تشبه بقوم فهو منهم، قال الطيبي: اللحون جمع لحن وهو التطريب وترجيع الصوت، قال صاحب جامع الأصول: ويشبه أن يكون ما يفعله القراء في زماننا بين يدي الوعاظ من اللحون العجمية في القرآن ما نهى عنه رسول الله - صلى الله عليه وسلم - (وسيجيء) : أي سيأتي كما في نسخة (بعدي قوم يرجعون) بالتشديد، أي يرددون (بالقرآن) : أي يحرفونه (ترجيع الغناء) بالكسر والمد بمعنى النغمة (والنوح) بفتح النون من النياحة، والمراد ترديدا مخرجا لها عن موضعها إذا لم يأت تلحينهم على أصول النغمات إلا بذلك، قال الطيبي: الترجيع في القرآن ترديد الحروف كقراءة النصارى (لا يجاوز) : أي قراءتهم (حناجرهم) : أي طوقهم، وهو كناية عن عدم القبول والرد عن مقام الوصول، والتجاوز يحتمل الصعود والحدور، قال الطيبي: أي لا يصعد عنها إلى السماء، ولا يقبله الله منهم، ولا يتحدر عنها إلى قلوبهم ليدبروا آياته ويعملوا بمقتضاه (مفتونة) بالنصب على الحالية، ويرفع على أنه صفة أخرى لقوم، واقتصر عليه الطيبي: أي مبتلى بحب الدنيا وتحسين الناس لهم (قلوبهم وقلوب الذين يعجبهم شأنهم) بالهمز ويعدل: أي يستحسنون قراءتهم، ويستمعون تلاوتهم ." 

( کتاب فضائل القرآن، باب آداب التلاوۃ و دروس القرآن، ج: 4، صفحه: 1505، رقم الحدیث:2207، ط: دار الفكر) 

فقط والله  اعلم 


فتوی نمبر : 144406102053

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں