بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1445ھ 30 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

نصرانیہ لڑکی کے ساتھ شادی کرنے کا حکم


سوال

میرا بیٹا آسٹریلیا میں رہتاہے، ایک نصرانیہ لڑکی سےجو کہ اصلا سرلنکا کی ہےشادی کرنا چاہتاہے، لڑکی کی فیملی 35 سال سے آسٹریلیا میں رہائش پذیر ہیں، اب پوچھنا یہ ہے کہ کیا میرے بیٹے کا  اس لڑکی سے اس شرط کے ساتھ شادی کرنا کہ وہ بعد میں  مسلمان ہوگی جائز ہے کہ نہیں؟

جواب

واضح رہے کہ مسلمان مرد کا نکاح کسی کافر عورت سے جائز نہیں،البتہ اگرکتابیہ یعنی یہودیہ یا نصرانیہ وغیرہ ہو تو اس سے  مسلمان مرد کا نکاح دو شرطوں کے ساتھ ہو سکتا ہے:

(1)  وہ  صرف نام کی عیسائی/یہودی اور درحقیقت لامذہب دہریہ نہ ہو،بلکہ اپنے مذہبی اصول کوکم ازکم مانتی ہو، اگرچہ عمل میں خلاف بھی کرتی ہو، یعنی اپنے نبی پر ایمان رکھتی ہو اور اس پر نازل ہونے والی کتاب پر بھی ایمان رکھتی ہو، اگرچہ وہ توحید کی قائل نہ ہو۔

(2)  وہ اصل ہی یہودیہ نصرانیہ ہو، اسلام سے مرتدہوکر یہودیت یا نصرانیت اختیار نہ کی ہو۔

صورتِ مسئولہ میں اگر یہ دو شرطیں مذکورہ کتابیہ(نصرانیہ) عورت میں پائی جائیں  تو اس سے نکاح صحیح و منعقد ہوجاتا ہے، لیکن بلاضرورتِ شدیدہ اس سے نکاح کرنا مکروہ اور بہت مفاسد پر مشتمل ہے،  آج کل کے پرفتن ماحول میں جب کہ برائی کا اثر قبول کرنے میں اضافہ روز افزوں ہے، اور عام طور پر حال یہ ہے کہ مرد کا اثر بیوی پر قائم ہونے کے بجائے شاطر لڑکیاں مردوں کو اپنا تابع دار بنالیتی ہیں، نیز اہلِ کتاب ماؤں کے فاسد اَثرات اولاد پر بھی بہت زیادہ پڑتے ہیں، اس لیے جواز کے باوجود اہلِ کتاب لڑکیوں سے نکاح نہ کرنے کا مشورہ دیا جاتا ہے،باقی نکاح کے بعد لڑکی کے اسلام لانے کی شرط لگانے سے حکم میں کوئی تبدیلی نہیں آتی۔

سابق مفتی اعظم پاکستان مفتی ولی حسن صاحب رحمہ اللہ ایک سوال کے جواب میں تحریر فرماتے ہیں:

"اہلِ کتاب کی لڑکی اگر موجودہ انجیل پر ایمان رکھتی ہے خواہ وہ محرف ہو یا حضرت  عیسیٰ کو نبی مانتی ہو خواہ وہ شرک کرے، یہی حال یہودی لڑکی کا ہے تو ان سے مسلمان کا نکاح جائز ہے، تاہم بہتر نہیں ہے، بصورتِ دیگر اگر یہودی یا نصرانی لڑکی دہریہ ہے،  اپنے نبی یا آسمانی کتاب کو نہیں مانتی تو اس سے مسلمان کا نکاح ناجائز و حرام ہے"۔ فقط واللہ تعالیٰ اعلم

کتبہ: ولی حسن (6 رجب المرجب 1399ھ)

المصنف لابن ابی شیبہ میں ہے:

"عن عبيد الله بن عمر، عن نافع، عن ابن عمر، «أنه كان يكره نكاح نساء أهل الكتاب، ولا يرى بطعامهن بأسا»،عن عبد الملك، قال: سألت عطاء عن نكاح اليهوديات، والنصرانيات، فكرهه فقال: «كان ذلك والمسلمات قليل»."

[كتاب النكاح،ج:3،ص:474،ط:مکتبة التاج]

الدر مع الرد میں ہے:

"(‌وصح ‌نكاح ‌كتابية) ، ‌وإن ‌كره ‌تنزيها (مؤمنة بنبي) مرسل (مقرة بكتاب) منزل، وإن اعتقدوا المسيح إلها، وكذا حل ذبيحتهم على المذهب بحر. وفي النهر مناكحة المعتزلة لأنا لا نكفر أحدا من أهل القبلة إن وقع إلزاما في المباحث،(لا) يصح نكاح (عابدة كوكب لا كتاب لها) ولا وطؤها بملك يمين (والمجوسية والوثنية) هذا ساقط من نسخ الشرح ثابت في نسخ المتن، وهو عطف على عابدة كوكبفقوله: والأولى أن لا يفعل يفيد كراهة التنزيه في غير الحربية، وما بعده يفيد كراهة التحريم في الحربية تأمل. (قوله: مؤمنة بنبي) تفسير للكتابية لا تقييد ط (قوله: مقرة بكتاب) في النهر عن الزيلعي: واعلم أن من اعتقد دينا سماويا وله كتاب منزل كصحف إبراهيم وشيث وزبور داود فهو من أهل الكتاب فتجوز مناكحتهم وأكل ذبائحهم (قوله: على المذهب) أي خلافا لما في المستصفى من تقييد الحل بأن لا يعتقدوا ذلك ويوافقه ما في مبسوط شيخ الإسلام يجب أن لا يأكلوا ذبائح أهل الكتاب إذا اعتقدوا أن المسيح إله، وأن عزيرا إله، ولا يتزوجوا نساءهم قيل وعليه الفتوى، ولكن بالنظر إلى الدليل ينبغي أنه يجوز الأكل والتزوج."

[كتاب النكاح، ج:3،ص:45،ط:سعيد]

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144405100757

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں