بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ناصبی فرقہ ,علامہ مشرقی اور ان کی جماعت سے متعلق استفتاء


سوال

سوال نمبر 1-ناصبی اہل بیت سے نفرت کیوں کرتے ہیں؟

سوال نمبر 2-کچھ لوگ علامہ مشرقی اور تحریک خاکسار کی بہت تعریفیں کرتے ہیں یہ علامہ کون ہیں؟ نیز ہمارے اکابر علماء دیوبند کی ان کے بارے میں کیا رائے ہے؟

سوال نمبر3- بناء کعبہ کی حکمت کیا ہے؟

سوال نمبر4-عام طور پرڈاکٹر ہمیں نقلی دوائی دیتے ہیں لیکن پیسہ اصلی دوائی کے لیتے ہیں تو اس طرح ان کی آمدنی جائز ہے؟

جواب

1۔ناصبی فرقے کے لوگ صرف اہل بیت سےہی نفرت نہیں کرتے بلکہ ہر اس شخص سے نفرت کرتے ہیں جو مروانی حکومت کے خلاف تھا، اور اس فرقہ کے لوگ مروانی حکومت کے خلاف آوازاٹھانےوالے تمام لوگوں کو باطل اور ناحق سمجھتے تھے، اور ان کا  مؤقف شہادتِ عثمان رضی اللہ کے بارے میں یہ ہے کہ وہ شہادتِ عثمان رضی اللہ عنہ کا مجرم اور ذمہ دار حضرت علی رضی اللہ کو قرار دیتے ہیں، کربلا کے حادثہ کا ذمہ دار حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو اور واقعہ حرہ کا ذمہ دار اُن صحابہ کرام رضی اللہ عنھم اجمعین کو جنہوں نے یزید کی اطاعت سے انحراف کیا تھا،اور حصارِ کعبہ کاذمہ دار حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنھما کے خلافت کے دعوی کوقرار دیتے ہیں۔

نیز ان کے نزدیک حضرت علی رضی اللہ عنہ خلیفہ راشد نہیں بلکہ خلافت کے غاصب تھےاور مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلنے والے ، حضرت حسین رضی اللہ عنہ،  حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنھمااور وہ تمام صحابہ رضی اللہ عنھم جو حادثہ حرہ اور حصارِ کعبہ کے خونی ہنگاموں میں یزید اور عبدالملک بن مروان کی تیغ ستم کا نشانہ بنے شہید نہیں بلکہ خلافت کے باغی تھے، جو اپنی بغاوت کی وجہ سے کیفرِ کردار کو پہنچے۔

اس بارے میں مزید تفصیل کے لیے "حضرت مولانا محمد عبدالرشید نعمانی صاحب" کی کتاب "ناصبیت تحقیق کے بھیس میں "کا مطالعہ فرمائیں۔

2۔علامہ مشرقی کا پورا نام عنایت اللہ مشرقی تھا،وہ اور ان کے متبعین بہت سارے بنیادی عقائد میں  مسلمانوں سے الگ اپنے منفرد نظریات رکھتے ہیں ، ذیل میں بطورِ مثال  ان کےچند عقائد درج کیے جاتے ہیں:

1۔اسلام کی بناء نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ، اور کلمہ شہادت پر نہیں ہے، بلکہ اسلام کے لیے اور خدا کی عبادت کے لیے کسی مذہب کی قید نہیں ہے۔بت پرستی وصلیب پرستی اور تین خدا ماننا بھی خدائی قانون ہے۔

2۔دنیاوی ترقی خواہ کسی طریق سے خواہ حلال یا حرام سے ہو،یہی توحید ہے۔

3۔سب موجودہ مسلمان اسلام سے خارج اور گمراہ ہیں، سب مسلمان اندھے، بہرے اور گمراہ ہیں، سب مسلمان گمراہ اور سیدھے راستے سے ہٹے ہوئے ہیں ، فقط  انگریز ہی پکے کامل مسلمان ہیں۔

4۔ہزاروں خداؤں کے ماننے والے پکے مؤحد اور عابد خدا ہیں۔

5۔ کسی نبی نے نماز نہیں پڑھی، نہ روزہ رکھا، نہ حج کیا، نہ زکوٰۃ دی۔

6۔ حج کے لیے بیت اللہ شریف اور مکہ شریف جانے کی ضرورت نہیں ، اچھرہ(جو کہ مشرقی کا گاؤں ہے)مکہ سے افضل ہے۔

7۔انگریزوں کی تابعداری کرنا ہی اللہ تعالیٰ کی تابعداری کرنا ہے۔

نیز ان کے علاوہ اور بھی بہت سے باطل نظریات اورباطل عقائد   جمہور اہلِ اسلام اور اصولِ اسلام کے خلاف اور  متصادم ہونے کی وجہ سے وہ اور ان کے متبعین دائرہ اسلام سے خارج ہیں۔

علامہ مشرقی اوران کے متبعین کے بارے میں مزید تفصیل کے لیے"حضرت مولانا مفتی محمد شفیع" رحمہ اللہ نےاپنی کتاب "جواہر الفقہ،ج:1،ص: 259تا 386" میں بعنوان "مشرقی اور اسلام "میں علامہ مشرقی کے عقائد پر مفصل کلام کیا ہے، اسے بھی ملاحظہ فرمائیں۔

3۔چوں کہ اللہ پاک جہتوں سے پاک ہیں،اللہ پاک ہر جگہ اور ہر وقت موجود ہوتے ہیں تو بندہ جس طرف بھی  منہ کرکے اپنے رب کی عبادت کرےتو اس کی اجازت ہونی چاہیے تھی لیکن  امت کے اتحاد کی حکمت کے تقاضے کی وجہ سےاور امت کے مصالح کے لیے کسی ایک جہت کو متعین کرنا ضروری تھاتاکہ مسلمانوں کی دینی وحدت برقرار رہےاس وجہ سے کعبہ بنا کر ایک سمت متعین کردی گئی کہ خانہ کعبہ کی طرف رخ کرکے جو نماز پڑھے گا اسی کی نماز قابل قبول ہوگی۔

(ملخص معارف القرآن، سورۃ البقرۃ، ج:1، ص:380،381، ط:مکتبہ معارف القرآن)

4۔واضح رہے کہ طب اور ڈاکٹری ایک ایسا شعبہ ہے  جس میں ڈاکٹر کا مریض کی مصلحت اور اس کی خیر خواہی کو مدِ نظر رکھنا شرعی اور اخلاقی  ذمہ داری ہے،اس بنا پر ڈاکٹر اور مریض کے معاملہ کی وہ صورت  جو مریض کی مصلحت اور فائدہ کے خلاف ہو یا جس میں ڈاکٹر اپنے پیشہ یا مریض کے ساتھ کسی قسم کی خیانت کا مرتکب ہوتا ہو، شرعاً درست نہیں ہے۔

نیز ڈاکٹر کا کام مریض کےمرض کی صحیح تشخیض کرکے اسے صحیح اور مستند دوائی مہیا کرناہے، کیوں کہ اسباب کے درجے میں مریض ان دوائیوں کو استعمال کرکے اپنے مرض پر قابو پاتاہے، جبکہ عام طور پر ڈاکٹر دوا لکھتا ہے فروخت نہیں کرتا، لیکن  اگر کوئی ڈاکٹر دوا فروخت کرتا ہے اور اصل دوا کے بجائے نقلی دوائی کسی مریض کو دیتا ہےاور اس سے پیسے اصل دوائی کے لیتا ہے،  تو اس صورت ميں مریض کی جان کے ساتھ کھیلنے کے علاوہ مریض کے ساتھ دھوکہ دہی کا بھی مرتکب ہورہاہے، جس کی وجہ سے ڈاکٹر سخت گناہ گار ہوگا۔

لہٰذاصورتِ مسئولہ میں مریض یہ سمجھ کر دوائی لے رہا ہے کہ وہ اصلی دوائی ہےاور پیسے بھی اصلی دوائی کے دیتا ہے جب کہ وہ دوائی اصلی ہونے کے بجائے  نقلی ہوتی ہے،تو دوائی دینے والے کا یہ عمل   جھوٹ اور دھوکا دہی کی وجہ سے ناجائز اور حرام ہے ،تاہم اس کی کمائی حرام نہیں، لیکن حلالِ طیب بھی نہیں،کیوں کہ جھوٹ اور دھوکہ کی وجہ سے اس میں خبث پیدا ہوگیا ہے۔

حدیث شریف میں ہے:

"عن أبي هریرة رضي اللّٰه عنه أن رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیه وسلم قال: من غش فلیس منا".

(سنن الترمذی، باب ما جاء فی کراهیة الغش في البیوع،ج:1،ص:378،ط:رحمانیہ)

العناية میں ہے:

"قال (ومن له على آخر عشرة دراهم جياد فقضاه زيوفا وهو لا يعلم فأنفقها أو هلكت فهو قضاء عند أبي حنيفة ومحمد رحمهما الله.

وقال أبو يوسف يرد مثل زيوفه ويرجع بدراهمه)

قال (ومن له على آخر عشرة دراهم جياد إلخ) رجل له على رجل عشرة دراهم جياد (فقضاه زيوفا والقابض لم يعلم فأنفقها أو هلكت فهو قضاء عند أبي حنيفة ومحمد رحمهما الله. وقال أبو يوسف يرد مثل زيوفه ويرجع عليه بالجياد؛ لأن حقه في الوصف مرعي)

من حيث الجودة كما أن حقه مرعي في الأصل من حيث القدر، فلو نقص عن كمية حقه رجع عليه بمقداره فكذا إذا نقص في كيفيته، ولا يمكن رعايته بإيجاب ضمان الوصف منفردا لعدم انفكاكه وهدره عند المقابلة بجنسه فوجب المصير إلى ما قلنا. ولأبي حنيفة ومحمد أن المقبوض من جنس حقه بدليل أنه لو تجوز به فيما لا يجوز الاستبدال كالصرف والسلم جاز فكان الاستيفاء من حيث الأصل بالمقبوض حاصلا، فلم يبق حقه إلا في الجودة وتداركها منفردة بإيجاب ضمانها غير ممكن شرعا لما ذكرنا أنها عند المقابلة بالجنس هدر ولا عقلا لعدم تصور الانفكاك، ولا بإيجاب ضمان الأصل؛ لأن المضمون حينئذ هو الأصل، والفرض أنه من حيث الأصل مستوف فإيجاب الضمان باعتباره إيجاب عليه له، ولا نظير له في الشرع."

(کتاب البیوع، مسائل ،منثورہ، ج:7، ص:129،130، ط:دارالفکر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144307100358

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں