بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

نشہ کی حالت میں طلاق دینا


سوال

میری شادی 1999 میں ہوئی،  2018 مارچ میں میں نے پہلی طلاق زبانی، گواہ کی موجودگی میں دی، اس وقت میں نشے میں تھا، جو آئس کا نشہ تھا۔

اس کے بعد میری بیوی نے بتایا میری ماں کو کہ 2009 میں بھی میں  اس کو ایک طلاق دے چکا ہوں جو میری یاد داشت میں بالکل نہیں۔ پھر میں نے بذریعہ ایس ایم ایس ایک طلاق بھیجی، اس شرط پر کہ اگر کل عشاء کے وقت تک رجوع نہ کیا تو طلاق ہو جائے گی، اور میں خود صبح ہی ان کے گھر کے باہر چلا گیا صلح کے لیے، لیکن انہوں نے دروازہ نہ کھولا۔ پھر عشاء کے وقت میری بہن نے فون پر میری بیوی سے رابطہ کیا اور میری بات کروائی، لیکن میری بیوی نے بات اپنے بھائی پر ڈال کر فون بند کر دیا۔ پھر تھوڑی دیر بعد سپیکر کھول کر اس کے بھائی سے بات ہوئی تو اس نے 10 مرلے کا مکان نام کروانے کی شرط رکھی اور فون بند کر دیا۔

پھر ہم نے فیصلہ کیا کہ فتوی لیتے ہیں، اگر مفتی صاحب نے کہا کہ شرط پوری کرنے پر طلاق واقع نہیں ہوئی  تو ہم مکان نام کر دیں گے۔ میں نے فوراً جامعہ نعیمیہ میں فتوی جمع کروادیا۔ اس دوران بھی آئس کا نشہ کرتا تھا۔ اسی دوران میں نے ان کو انکار بھی کیا کہ مکان نہیں دوں گا۔ لیکن جب 15 دن بعد فتوی آگیا اور مفتی صاحب نے شرط پوری کرنے پر طلاق نہ ہونے کا فتوی دیا تو پھر اس دن سے آج تک میں نے کبھی انکار نہیں کیا اور ہم مکان نام لگوانے کو تیار ہیں۔ اب میں ہر قسم کا نشہ بھی چھوڑ چکاہوں اور پانچ وقت کا نمازی ہو۔ ہمارے پانچ بچے بھی ہیں۔ علماء کیا فرماتے ہیں اس بارے میں کہ طلاق ہوئی یا نہیں؟

جواب

نشہ کی حالت میں طلاق دینے سے شرعی طور پر طلاق واقع ہوجاتی ہے، لہذا سوال کے مطابق اگر آپ نے 2009 میں پہلی بار طلاق دی تھی، اگرچہ اس وقت آپ نشہ میں ہوں، اگر بیوی کے پاس گواہ موجود ہوں یا غالب گمان آپ کا یہی ہو کہ آپ نے طلاق دی تھی تو اس سے ایک طلاق واقع ہوگئی تھی، اگر اس پہلی طلاق کے بعد آپ نے اپنی بیوی سے رجوع کرلیا ہو، چاہے زبانی رجوع کیا ہو یا ہمبستری کرلی ہو تو آپ کا نکاح باقی رہا، پھر 2018 میں گواہوں کی موجودگی میں جو طلاق دی اس سے دوسری طلاق واقع ہوگئی تھی۔

اس دوسری طلاق کے بعد اگر آپ نے عورت کی عدت یعنی تین ماہواریاں گزرنے سے پہلے پہلے اس سے رجوع کرلیا تھا تو نکاح ختم نہیں ہوا، البتہ آپ کو اب فقط ایک طلاق کا حق باقی تھا۔ (اور اگر اس طلاق کے بعد آپ نے اپنی بیوی سے عدت یعنی تین ماہواریوں کے اندر اندر رجوع نہیں کیا تھا تو آپ کا نکاح ختم ہوچکا تھا، پھر بعد میں مشروط طلاق دینے سے بھی کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی)۔

پھر آپ نے بذریعہ ایس ایم ایس جو مشروط طلاق دی کہ:"اگر کل عشاء کے وقت تک رجوع نہ کیا تو طلاق ہوجائے گی"، اگر یہ طلاق عورت سے رجوع کے بعد دی ہو، یا رجوع نہ کیاتھا لیکن عدت کے اندر اندر یہ الفاظ آپ نے لکھ کر بھیجے تھے تو اس صورت میں یہ طلاق معلق کہلائے گی۔

اگر رجوع سے مراد آپ کا اپنی بیوی سے رجوع کرنا ہو یعنی آپ کا مقصود یہ ہو کہ اگر میں نے کل عشاء تک رجوع نہ کیا تو میری بیوی پر مزید ایک طلاق واقع ہوجائے گی، اور پھر آپ نے اگلے دن کی عشاء سے قبل رجوع کرلیا تھا چاہے زبانی رجوع کے الفاظ کہے ہوں یا ٹیلی فون پر تو شرط کے پورا ہوجائے کی وجہ سے طلاق واقع نہیں ہوئی۔ نکاح قائم ہے اور آپ کو اب صرف ایک طلاق کا حق حاصل ہے۔ یہ حکم اس صورت میں ہے جب کہ یہ الفاظ آپ نے دوسری طلاق جو کہ 2018 میں دی تھی اس سے رجوع کرلینے کے بعد یا عورت کی عدت گزرنے سے پہلے لکھے ہوں۔

مذکورہ تفصیل کی روشنی میں جب نکاح قائم ہے تو خاندان کے بڑوں کو یا اہل محلہ میں سے دیندار لوگوں کو درمیان میں لاکر باہمی مصالحت کرلینی چاہیے، تاکہ یہ رشتہ ختم ہوجانے سے بچ جائے۔

اور اگر میاں بیوی میں طلاق کی بعض صورتوں میں اختلاف ہے، یعنی آپ کے اور آپ کی بیوی کے مؤقف میں تضاد ہو تو اس صورت میں بہتر یہ ہے براہِ راست دارالافتاء آکر یا اپنے علاقے میں موجود کسی مستند دارالافتاء میں یا کسی مستند عالم دین کے پاس حاضر ہوکر اس معاملہ کا تصفیہ کرالیا جائے۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144203201434

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں