بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

نشے کی حالت میں طلاق اور خلع کا حکم


سوال

نشے کی حالت میں طلاق اور خلع کا کیا حکم ہے؟

جواب

اگر کوئی شخص  اختیاری طور پر حرام شے  مثلاً شراب وغیرہ کانشہ کرے پھر اس نشہ کی حالت میں طلاق یا خلع کا معاملہ کرتا ہے تو وہ طلاق اور خلع درست ہوگی،اور اس کے الفاظ کے مطابق احکام بھی جاری ہوں گے،اورنشہ کی حالت میں دی گئی طلاق ،خلع شرعاً اس پر زجر کرتے ہوئے معتبر شمار ہوگي،تاکہ آئندہ کے لیے وہ شراب کی عادت چھوڑ دے۔

اور اگر کسی حلال چیز کے استعمال سے کسی کو نشہ آجائے مثلاً کسی دوائی کے استعمال سے،یا کوئی جبراً کسی کو حرام چیز  شراب وغیرہ پلا دے ، یا دھوکے سے نشہ آور چیز استعمال کرادے اور اس سے نشہ آجائے تو اس کے بعد طلاق واقع نہیں ہوگی۔

فتاوی شامی میں ہے:

"وبه ظهر أن المختار قولهما في جميع الأبواب فافهم. وبين في التحرير حكمه أنه إن كان سكره بطريق محرم لا يبطل تكليفه فتلزمه الأحكام وتصح عبارته من الطلاق والعتاق، والبيع والإقرار، وتزويج الصغار من كفء، والإقراض والاستقراض لأن العقل قائم، وإنما عرض فوات فهم الخطاب بمعصيته، فبقي في حق الإثم ووجوب القضاء."

( کتاب الطلاق، مطلب في تعریف السکران وحکمه،3/ 239، ط: سعید)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"طلاق السكران واقع إذا سكر من الخمر أو النبيذ. وهو مذهب أصحابنا رحمهم الله تعالى كذا في المحيط. ولو أكره على شرب الخمر أو شرب الخمر لضرورة وسكر وطلق امرأته اختلفوا فيه والصحيح أنه كما لا يلزمه الحد لا يقع طلاقه ولا ينفذ تصرفه كذا في فتاوى قاضي خان. أجمعوا أنه لو سكر من البنج أو لبن الرماك ونحوه لا يقع طلاقه وعتاقه كذا في التهذيب. ومن سكر من البنج يقع طلاقه ويحد لفشو هذا الفعل بين الناس وعليه الفتوى في زماننا كذا في جواهر الأخلاطي."

( کتاب الطلاق، الباب الاول، فصل في من یقع طلاقه و في من لا یقع طلاقه، 1/ 353، ط: مکتبه رشیدیه)

وفیہ ایضاً:

"خلع ‌السكران والمكره جائز عندنا وخلع الصبي باطل والمعتوه والمغمى عليه من مرض بمنزلة الصبي في ذلك هكذا في المبسوط."

(كتاب الطلاق،الباب الثامن في الخلع،504/1،ط:رشیدیه)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144403100046

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں