میرے بہنوئی نے میری بہن کو نشے کی حالت میں طلاق دی ہے، جس کے الفاظ یہ تھے، سرائیکی میں تین دفعہ یہ الفاظ کہے کہ" میں تیکو طلاق ڈیندا"اور پھر مجھے فون کر کے بھی بتایا کہ میں آپ کی بہن کو طلاق دے چکا ہوں، اور آپ کو بھی بتا رہا ہوں،کہ میں نے اس کو طلاق دے دی، اور اب وہ اس کا انکار کر رہا ہے، کہ نشہ کی حالت میں طلاق نہیں ہوتی۔
واضح رہے کہ جس طرح عام حالت میں طلاق دینے سے طلاق واقع ہو جاتی ہے، اسی طرح نشے کی حالت میں طلاق دینے سے بھی شرعاً طلاق واقع ہو جاتی ہے۔
صورتِ مسئولہ میں اگر واقعۃً سائل کے بہنوئی نے اپنی بیوی کونشے کی حالت میں تین مرتبہ ان الفاظ سے طلاق دی ہے کہ " میں تیکو طلاق ڈیندا" یعنی میں تجھے طلاق دیتا ہوں، تو ایسی صورت میں مذکورہ الفاظ کی وجہ سے سائل کی بہن پر تینوں طلاقیں واقع ہو چکی ہیں،اور سائل کی بہن شوہر پر حرمتِ مغلظہ کے ساتھ حرام ہو چکی ہے، نکاح ٹوٹ چکا ہے، اب رجوع کرنا اور ساتھ رہنا قطعاً جائز نہیں،بیوی اپنی عدت ( تین ماہواریاں اگر حمل نہ ہو تو اور اگر حمل ہو تو بچے کی پیدائش تک عدت ) گزار کر کسی دوسری جگہ نکاح کرکے اپنا گھر بسانے میں آزاد ہے۔
و فی أحكام القرآن للجصاص :
"فالكتاب و السنة و إِجماع السلف توجب إيقاع الثلاث معا و إِن كانت معصية."
(1 /529 ، ط: قدیمی)
فتاوی ہندیہ میں ہے :
"وإن كان الطلاق ثلاثًا في الحرة وثنتين في الأمة لم تحل له حتى تنكح زوجًا غيره نكاحًا صحيحًا و يدخل بها ثم يطلقها أو يموت عنها، كذا في الهداية."
(کتاب الطلاق، الباب السادس فى الرجعة، فصل فيماتحل به المطلقة ومايتصل به، ج:1، ص: 473، ط: مكتبه رشيديه)
وفیہ ایضاً:
"وطلاق السكران واقع إذا سكر من الخمر أو النبيذ. وهو مذهب أصحابنا رحمهم الله تعالى كذا في المحيط".
(کتاب الطلاق، الباب الاول فی تفسیرالطلاق، فصل فيمن يقع طلاقه وفيمن لا يقع طلاقه، ج:1، ص:353، ط:مکتبۃ رشیدیۃ)
تحفة الفقہاء میں ہے:
"وأما عدة الطلاق فثلاثة قروء في حق ذوات الأقراء إذا كانت حرة .....وأما في حق الحامل فعدتها وضع الحمل لا خلاف في المطلقة لظاهر قوله: {وأولات الأحمال أجلهن أن يضعن حملهن }."
(تحفة الفقهاء: كتاب الطلاق، باب العدة (2/ 244، 245)،ط. دار الكتب العلمية،بيروت )
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144610102232
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن