بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ناشزہ کی اجازت کے بغیردوسری شادی کرنا


سوال

میری شادی اکتوبر ،۲۰۱۶ء کوہوئی،میری بیگم ریلوے میں ملازمہ ہے،میرے دوبچے ،ایک بیٹی جس کی عمر چار سال  ہےاور ایک  بیٹادوسال کاہے،میری بیگم معمولی معمولی باتوں پر اپنے والد کے گھر چلی جاتی ہے پھر کسی سے بات نہیں کرتی،میرے اور میرے کسی رشتہ دار کو میری اولاد سے ملنے بھی نہیں دیتی،اب وہ ایک ماہ سے زائدہوگیاپھر اپنے والد کے گھر گئی ہوئی ہے،میرافون بھی نہیں اٹھاتی،اب مجھے حقِ زوجیت بھی ادا کرنے نہیں دیتی، اور میرے بچوں کی بھی ٹھیک سے پرورش نہیں ہورہی ۔

۱۔ایسی صورتِ  حال میں    جب کہ میں بہت پریشان ہوں،  میری بیوی کا ایسا  رویہ   اپنانا درست ہے؟وہ مجھ  سےبالکل لاتعلق ہو کررہ رہی ہے،اگر باہمی  طور پرمعاملہ حل کرنے کی کوشش کے باوجود حل نہ ہواور میری بیوی خاموشی ہی اختیار کیے رہے،تو کیا ایسی صورت میں دوسری جگہ شادی کرسکتاہوں ؟کیا بیگم سے اجازت لینے کی ضرورت ہے کہ وہ معاملہ حل کرنا چاہتی ہے یانہیں؟

۲۔ میری بیگم اپنے بچوں کو ساتھ لے گئی ہے،اور  میرے ساتھ کوئی رابطہ نہیں ،اور مجھے اس بات کا  ڈر اور احتمال ہے کہ میرے بچوں کی ٹھیک طریقے سے تربیت نہیں ہورہی ،میں چاہتاہوں کہ میرے بچے میرے ساتھ رہیں اور ٹھیک طریقے دینی  تربیت کرسکوں ۔

۳۔ اگر شادی کرسکتاہوں تومعاملہ حل کرنے کے لیے اپنی بیگم کو کتناوقت دے سکتاہوں؟تاکہ اس کے بعد شادی کرسکوں ۔

جواب

شریعت نے  میاں بیوی پر ایک دوسرے کےباہمی حقوق لازم کیے ہیں، شوہر پر نان نفقہ لازم کیاہے اسی طرح  بیوی کو بھی اپنے شوہر کی اطاعت اور فرماں برداری کا حکم دیا ہے، ارشاد نبوی ہے:  (بالفرض) اگر میں کسی کو کسی کے سامنے سجدہ کرنے کا حکم دیتا تو بیوی سے کہتا کہ وہ اپنے شوہر کو سجدہ کرے ، اسی اطاعت شعاری کا ایک نمونہ یہ ہے کہ جب شوہر بیوی کو اپنا طبعی تقاضا پورا کرنے کے لیے بلائے تو بیوی انکار نہ کرے، اس سلسلے میں حدیثِ مبارک میں واضح تعلیمات موجود ہیں، چنانچہ ارشادِ مباک ہے: جب آدمی اپنی بیوی کو اپنی حاجت پوری کرنے کے لیے بلائے اور بیوی انکار کرے، جس پر شوہر غصہ کی حالت میں رات گزارے تو صبح تک فرشتے اس عورت پر لعنت بھیجتے رہتے ہیں ، دوسری روایت میں ہے: جب شوہر اپنی بیوی کو اپنی حاجت پوری کرنے کے لیے بلائے تو وہ اس کے پاس چلی جائے اگر چہ روٹی پکانے کے لیے تنور پر کھڑی ہو ۔ لہذا بغیر کسی عذر شرعی کے عورت کو شوہر کی طبعی ضروریات پورا کرنے سے انکار کرنا درست نہیں ہے۔

شوہر اول نرمی اور پیار سے اپنی بیوی کو خود سمجھانے کی کوشش کرے، اگر ان کوششوں سے کوئی فائدہ ہوتا محسوس نہ ہو رہا ہو تو وہ دونوں خاندانوں کے بڑوں کو اعتماد میں لے کر ان کے ذریعے بیوی کو سمجھانے کی کوشش کرے، ان کوششوں کے باوجود بھی بیوی باز نہ آئے اور شوہر استطاعت رکھتا دوسری شادی کرلے، دوسری شادی کے لیے شرعاً پہلی بیوی کی اجازت ضروری نہیں ہے۔

۲۔اولاد کی تربیت کے متعلق شرعی حکم یہ ہےکہ بیٹاسات سال تک اور بیٹی نو سال تک والدہ  کی زیرِپرورش رہے گی،مذکورہ عمر گزرنے کے بعد بیٹااور بیٹی کی پرورش کاحقدار والد ہے؛لہٰذ  ا صورتِ مسئولہ میں سائل کے دونوں بچے جن میں بیٹا سات سال کی عمر تک،بیٹی نوسال کی عمر تک،اپنی والدہ کے پاس رہیں گے ،مذکورہ عمر گزرنے کے بعد والد کو پرورش کاحق حاصل ہوگا۔

۳۔اگر معاملہ حل ہونے کی کوئی صورت نہ ہو اور بیگم خاموشی اختیار کیے ہوئے ہو  تو  شوہر مذکورہ بالا طریقے کے مطابق مسئلہ حل کرنے کی کوشش کرے،جب شوہر کو مسئلہ کے حل سے مایوسی ہوجائے تو پھردوسری شادی کرنا چاہے تو کرسکتاہے، اگر استطاعت رکھتاہو تو  بغیر انتظار کیے جلد ہی  دوسری جگہ شادی کا اہتمام کرے،تاکہ گناہ میں پڑنے کا اندیشہ نہ ہو۔

قرآن ِکریم  ميں هے؛

"وَإِنْ خِفْتُمْ شِقَاقَ بَيْنِهِمَا فَابْعَثُوا حَكَمًا مِنْ أَهْلِهِ وَحَكَمًا مِنْ أَهْلِهَا إِنْ يُرِيدَا إِصْلَاحًا يُوَفِّقِ اللَّهُ بَيْنَهُمَا إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلِيمًا خَبِيرًا"

(النسآء :35)

مشکاۃ المصابیح میں ہے:

"وعن أبي هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: « لو كنت آمرًا أحدًا أن يسجد لأحدٍ لأمرت المرأة أن تسجد لزوجها». رواه الترمذي".

(مشكاة المصابيح، كتاب النكاح، باب عشرة النساء ص: 281 ط: قديمي)

وفيه أيضا:

"وعن أبي هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:إذا دعا الرجل امرأته إلى فراشه فأبت فبات غضبان لعنتها الملائكة حتى تصبح . متفق عليه. وفي رواية لهما قال : والذي نفسي بيده ما من رجل يدعو امرأته إلى فراشه فتأبى عليه إلا كان الذي في السماء ساخطًا عليها حتى يرضى عنها".

(مشكاة المصابيح، كتاب النكاح، باب عشرة النساء ص: 280 ط: قديمي)

وفيه أيضا:

"وعن طلق بن علي قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:إذا الرجل دعا زوجته لحاجته فلتأته وإن كانت على التنور. رواه الترمذي".

(مشكاة المصابيح، كتاب النكاح، باب عشرة النساء ص: 281 ط: قديمي) 

فتاوٰی شامی میں ہے:

"(والحاضنة) أما، أو غيرها (أحق به) أي بالغلام حتى يستغني عن النساء وقدر بسبع وبه يفتى لأنه الغالب. ولو اختلفا في سنه، فإن أكل وشرب ولبس واستنجى وحده دفع إليه ولو جبرا وإلا لا (والأم والجدة) لأم، أو لأب (أحق بها) بالصغيرة (حتى تحيض) أي تبلغ في ظاهر الرواية. ولو اختلفا في حيضها فالقول للأم بحر بحثا.

وأقول: ينبغي أن يحكم سنها ويعمل بالغالب. وعند مالك، حتى يحتلم الغلام، وتتزوج الصغيرة ويدخل بها الزوج عيني (وغيرهما أحق بها حتى تشتهى) وقدر بتسع وبه يفتى."

( کتاب الطلاق، باب الحضانة،ج:3، ص:555، ط:سعيد)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144311100390

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں