میرے اور میری بیوی کے درمیان کچھ اختلافات ہونے کی وجہ سے تقریبا ًچار مہینے پہلے میری بیوی اپنے والدین کےگھر چلی گئی،اور یہ پیغام بھیجا کہ میں آنے کےلیے تیار نہیں ہوں میں نے کئی بار معافی بھی مانگی اور کئی بار والدین وغیرہ اختلافات ختم کرنے کےخاطر اور دوبارہ ازدواجی زندگی برقرارکرنے کے خاطر بھیجالیکن بیوی آنے کوتیار نہیں ۔میری بیوی نہ آنے کےلیے تیار ہے اور نہ خلع لینے کےلیے تیار ہے اور میں طلاق بھی نہیں دیناچاہتاہوں ،ایسی صورت میں شریعت مجھے کیا راہنمائی کرتی ہے ۔
1۔اگر میں بیو ی کو طلاق دو تو کیا مجھ پر بیوی کانفقہ لازم ہوگا یانہیں؟اگر لازم ہوگا تو کتنے مہینے تک؟
2۔اسی طرح اگر میں دوسری شادی کرنا چاہوں تو اپنی بیو ی کو طلاق دینے سے پہلے کرسکتا ہوں یانہیں ؟
1۔اگر بیوی بلا وجہ شرعی اپنے والدین کے گھر رہ رہی ہے ،سائل کے بلانے پر بھی نہیں آرہی تو طلاق کے بعد عدت کا خرچہ سائل پر لازم نہیں ہوگا،اور اگر بیوی کسی شرعی وجہ کی بناء پر اپنے میکے رہ رہی ہے ، بیوی کا قصور نہ ہو بلکہ سائل قصور وار ہو تو ایسی صورت میں عدت کا خرچہ شرعاً سائل پر لازم ہوگا۔
2۔نیز طلاق دینے سے پہلےبھی شوہر کو دوسری شادی کرنے کی شرعاً اجازت ہے ۔
فتاوی شامی میں ہے:
"(و) تجب (لمطلقة الرجعي والبائن، والفرقة بلا معصية كخيار عتق، وبلوغ وتفريق بعدم كفاءة النفقة والسكنى والكسوة) إن طالت المدة۔۔۔وفي الذخيرة: وتسقط بالنشوز وتعود بالعود."
(کتاب النکاح،باب النفقۃ،مطلب فی نفقۃ المطلقۃ،ج:3،ص:609،ط:سعید)
ارشاد باری تعالی ہے :
" وَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تُقْسِطُواْ فِى ٱلْيَتَٰمَىٰ فَٱنكِحُواْ مَا طَابَ لَكُم مِّنَ ٱلنِّسَآءِ مَثْنَىٰ وَثُلَٰثَ وَرُبَٰعَ ۖ فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تَعْدِلُواْ فَوَٰحِدَةً أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَٰنُكُمْ ۚ ذَٰلِكَ أَدْنَىٰٓ أَلَّا تَعُولُواْ."البقرة:3"
"ترجمہ:اور اگر تم کو اس بات کا احتمال ہو کہ تم یتیم لڑکیوں کے بارہ میں انصاف نہ کرسکو گے تو اور عورتوں سے جو تم کو پسند ہوں نکاح کرلو دودوعورتوں سے اور تین تین عورتوں سے اور چارچارعورتوں سے پس اگر تم کو احتمال اس کاہو کہ عدل نہ رکھو گے تو پھر ایک ہی بی بی پر بس کرو یا جولونڈی تمہارے ملک میں ہو وہی سہی ،اس امر مذکور میں زیادتی نہ ہو ہونے کی توقع قریب تر ہے۔"(از:بیان القرآن)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144308102045
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن