بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

12 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

نشے کی حالت میں طلاق


سوال

 کیا نشے کی حالت میں طلاق ہو سکتی ہے؟جب کہ وہ وہم کا مریض ہو اور دماغ کی دوا مستقل کھا رہا ہو؟

جواب

اگر نشہ دوا کی وجہ سے ہو تو نشے کی حالت میں دی گئی طلاق واقع نہیں ہوتی،   البتہ اگر نشہ کسی  گناہ  کی وجہ سے ہو،  مثلاً شراب پی ہو اور نشہ آگیا، تو ایسے نشے کی حالت میں طلاق ہوجاتی ہے۔

صورتِ  مسئولہ میں اگر دماغ کی دوا کے اثر سے نشے کی حالت ہوئی اور طلاق دی تو طلاق واقع نہیں ہوگی۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3 / 240):

"(قوله: أو أفيون أو بنج) الأفيون: ما يخرج من الخشخاش. البنج: بالفتح نبت منبت. وصرح في البدائع وغيرها بعدم وقوع الطلاق بأكله معللًا بأن زوال عقله لم يكن بسبب هو معصية. والحق التفصيل، وهو إن كان للتداوي لم يقع لعدم المعصية، وإن للهو وإدخال الآفة قصدا فينبغي أن لايتردد في الوقوع.

وفي تصحيح القدوري عن الجواهر: وفي هذا الزمان إذا سكر من البنج والأفيون يقع زجرا، وعليه الفتوى، وتمامه في النهر (قوله: زجرًا) أشار به إلى التفصيل المذكور، فإنه إذا كان للتداوي لا يزجر عنه لعدم قصد المعصية."

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144211200878

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں